کولمبو (ڈیلی اردو) سری لنکا میں مشتعل مظاہرین نے حکومت کے حامیوں سے پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکمران راجا پکشے خاندان اور متعدد اراکین اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔
ہزاروں افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے سابق وزیراعظم کے گھر کے مرکزی دروازے کو توڑ دیا تھا جب کہ ان کے گھر پر تقریباً 10 پیٹرول بم بھی مارے گئے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ مشتعل ہجوم کے حملے کے بعد فوج نے سابق وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کو بحفاظت نکال کر حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہےکہ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی تاہم مشتعل مظاہرین نے مہندا راجا پاکسے کی درجنوں پراپرٹیز کو نذر آتش کردیا ہے جب کہ ان کے آبائی گاؤں میں واقع فیملی میوزیم کو بھی جلادیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے پیر کو استعفیٰ دیا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔
حکومت مخالف مظاہرین نے مہندا راجا پکشے کی سرکاری رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے کی بھی کوشش کی۔
سری لنکا میں جاری پرتشدد مظاہروں میں سوموار سے اب تک حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمان سمیت نو افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں اور حکام کی جانب سے ملک بھر میں عائد کرفیو میں بدھ تک توسیع کر دی گئی ہے تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں۔
مظاہرین مہندا راجاپکشے کے استعفے کے بعد اب یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ان کے بھائی اور سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پکشے بھی مستعفی ہوں۔
سری لنکا میں مہنگائی اور بجلی کی بندش کے خلاف گذشتہ مہینے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سری لنکا اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
Update: The Rajapaksa ancestral home in Medamulluna has been set on fire. pic.twitter.com/qO4L4fEypN
— DailyMirror (@Dailymirror_SL) May 9, 2022
بحرالہند میں سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
بھائی کا بھائی کو استعفیٰ
76 سالہ راجا پکشے کے ترجمان کے مطابق انھوں نے اپنا استعفیٰ صدر گوتابایا راجا پکشے کو بھجوا دیا ہے۔
ملک کے صدر گوتابایا راجا پکشے وزیراعظم مہندا راجا پکشے کے بھائی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں امید ہے کہ اس استعفے سے بحران حل ہونے میں مدد ملے گی تاہم صدر گوتابایا راجاپکشے کی موجودگی میں اُن کے مخالفین کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا امکان کم ہے۔ اکثر سری لنکن چاہتے ہیں کہ گوتابایا راجا پکشے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔
سری لنکا کو سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت نے فوری مالی امداد کی درخواست کی ہے۔
گذشتہ ہفتے صدر کی رہائشگاہ کے باہر ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
مظاہرین نے کولمبو میں صدر گوتابایا راجا پکشے کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے بعد فوج کو تعینات کیا گیا اور بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔
پیر کو کولمبو میں صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر کے باہر پرتشدد واقعات کے بعد پولیس اور فوج تعینات کر دی گئی تھی۔ پولیس نے حکمران جماعت کے سینکڑوں حامیوں پر پولیس حصار توڑنے اور حکومت مخالف مظاہرین پر ڈنڈوں سے حملہ کرنے کے بعد آنسو گیس اور واٹر کینن فائر کیے۔
پیر کی رات خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا کہ مظاہرین کی جانب سے وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ کے اندرونی سکیورٹی حصار کو توڑنے کی کوشش کے دوران فائرنگ کی آواز سنی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم کی ٹیمپل ٹریز رہائش گاہ کے باہر مظاہرین کے خیمے اکھاڑنے کے بعد پولیس نے ساحلی پٹی پر مظاہرین کے صدر کے خلاف لگائے گئے کیمپ پر بھی حملہ کیا۔
ایک عینی شاہد نے کہا کہ ‘ہمیں مارا گیا، میڈیا، خواتین اور بچوں کو مارا گیا۔’
دوسری طرف دارالحکومت کے مضافات میں نیٹامبوا میں پولیس نے کہا کہ ہزاروں مظاہرین نے حکمران جماعت کے ایک رکنِ پارلیمان کی گاڑی کا گھیراؤ کر لیا۔ اُنھوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ بعد میں وہ اور اُن کے ایک محافظ بھی ہلاک پائے گئے۔
اسی طرح جنوبی شہر ویراکیٹیا میں ایک اور رکنِ پارلیمان نے اپنے گھر کے باہر مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔
اطلاعات ہیں کہ مظاہرین حکمران جماعت کے سیاستدانوں کی املاک کو آگ لگاتے رہے اور حکومتی اہلکاروں پر حملہ کیا گیا۔
اپریل میں مظاہروں کی شروعات سے ہی مظاہرین صدر راجاپکشے کے دفتر کے باہر پرامن انداز میں خیمہ زن تھے۔ سری لنکن لوگوں کو بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی قوتِ خرید سے باہر ہو جانے پر غصہ ہے۔
سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور اب یہ خوراک، دواؤں اور ایندھن جیسی ضروری اشیا بھی درآمد نہیں کر سکتا۔
حکومت کی جانب سے ہنگامی طور پر عالمی امداد کی درخواست کی گئی ہے۔ اس نے کووڈ 19 کی عالمی وبا کو اس مشکل کا ذمہ دار قرار دیا ہے جس کے باعث سیاحت پر منحصر سری لنکن معیشت کو نقصان اٹھانا پڑا۔
سری لنکن معیشت کا زرِ مبادلہ کے لیے غیر ملکی کرنسی پر بڑی حد تک انحصار تھا۔
مگر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی بے نظمی اس کی وجہ ہے۔
مظاہرین کی جزوی فتح
تجزیہ: راجنی ودیاناتھن، نامہ نگار جنوبی ایشیا
اقتصادی غیر یقینی کے شکار ملک میں مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ حیران کُن نہیں تھا۔ کئی دن سے چہ مگوئیاں چل رہی تھیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے کیونکہ سننے میں آ رہا تھا کہ اُن کے بھائی نے بھی اُن سے اقتدار چھوڑنے کے لیے کہہ دیا ہے۔
آخری کچھ دنوں میں مہندا راجاپکشے اپنی جگہ قائم رہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ دوسرے بھائی کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہونے کی وجہ سے اُنھیں نہیں جانا چاہیے، مگر بالآخر اُنھیں جانا پڑا۔
الوداع کہنے سے قبل اُنھوں نے صبح کے وقت اپنے حامیوں کے ایک جلسے سے خطاب کیا جنھیں بعد میں حکومت مخالفین مظاہرین پر حملہ کرتے دیکھا گیا تھا۔
جب وزیرِ اعظم کے استعفے کی خبر کولمبو کی گلیوں میں پہنچی تو لوگوں کو خوشی سے ناچتے ہوئے دیکھا گیا۔ کئی ہفتوں سے اُن کا مطالبہ تھا کہ دہائیوں سے سری لنکا پر حکومت کر رہے راجاپکشے خاندان کو اب مستعفی ہونا چاہیے۔
تاہم اسے اب بھی جزوی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا اصل ہدف صدر ہیں مگر ایسی کوئی علامات نہیں کہ وہ اقتدار سے الگ ہو رہے ہوں جس کا مطلب ہے کہ مظاہرے جاری رہیں گے۔