سری نگر (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سری نگر میں بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی کے خصوصی جج منجیت سنگھ منہاس نے حریت رہنما اور سالویشن موومنٹ کے چیئرمین محمد اکبر بھٹ اور سات دیگر کشمیریوں کے خلاف مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈز جمع کرنے کے خاطر جموں و کشمیر کے طلبہ کو پاکستانی میڈیکل کالجو ں کی سیٹیں فروخت کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایک مقدمہ درج کر لیا ہے۔
After hearing detailed arguments from a battery of lawyers from the side of the defence and the counter arguments of SIA represented by Special Public Prosecutor,in eleven hearings and spread over five months the Hon’ble Court of Special Judge(1/5)
— J&K Police (@JmuKmrPolice) May 10, 2022
ایک سرکاری عہدیدارکے مطابق ان ‘ناپسندیدہ افراد‘ پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان میں مختلف کالجوں، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں ایم بی بی ایس اور دیگر پروفیشنل کورسز میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے رہائشیوں کے داخلے کا انتظام کرانے کے لیے بعض تعلیمی مشاورتی اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔ داخلہ دلانے کے نام پر ان طلبہ و طالبات سے بھاری رقوم وصول کی جاتی تھیں اور اس رقم کا استعمال مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے کیا جاتا تھا۔
اس اہلکار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کے بچوں کو حریت رہنماؤں کی سفارش پر پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا تھا، حالانکہ طلبہ کو گمراہ کرنے کے لیے پاکستان میں حریت کے دفتر میں نیشنل ٹیلنٹ سرچ کے نام سے ایک مسابقتی امتحان میں انہیں شامل ہونے کے لیے کہا جاتا تھا اور طلبہ یہ سمجھتے تھے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی وجہ سے ہی انہیں داخلہ مل رہا ہے۔
کشمیری طلبہ کو پاکستانی کالجوں میں داخلہ کیوں ملتا ہے؟
ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق جموں و کشمیر سے تقریباً 100طلبہ ہر سال بالخصوص ایم بی بی ایس کورسز میں داخلے کے لیے پاکستان جاتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران سن 2002 کے آس پاس کشمیری طلبہ کے پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اسے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے ایک بڑے اقدام کی ابتدا کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ یہ فیصلہ جنو ب ایشیا میں علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک)کے رکن ملکوں کے مابین طلبہ کے تبادلے کے پروگراموں کے عین مطابق تھا۔ اس کے تحت پاکستان کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تین میڈیکل کالجوں میں بھی جموں و کشمیر کے طلبہ کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ ان کالجوں میں چھ فیصد سیٹیں جموں و کشمیر کے طلبہ کے لیے ریزرو تھیں۔
لیکن بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کالجوں کی طرف دی جانے والی ڈگریوں کو سن 2017 میں ہی کالعدم قرار دے دیا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔
بھارت نے اب پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرف سے جاری کردہ ڈگریوں کو بھی اپنے ہاں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیم اور تکنیکی تعلیم کے ریگولیٹری ادارے بالترتیب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن نے اس سال اپریل میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے کہا تھا کہ پاکستان سے حاصل کردہ ڈگریاں بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے اور روزگار کے لیے بھی ناقابل قبول ہوں گی۔ پاکستان نے اس فیصلے پر بھارت سے احتجاج بھی کیا تھا۔
نئی دہلی حکومت کے اس فیصلے نے ان سینکڑوں کشمیری طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جنہوں نے پاکستانی تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کی ہیں یا اس وقت وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کا الزام ہے کہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے کم از کم 17طلبہ بعد میں عسکریت پسندانہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔ تاہم کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ایسا ایک بھی کیس نہیں ہوا کہ ایم بی بی ایس کا کوئی کشمیری طالب علم عسکریت پسندی کی تحریک سے جڑا ہو۔ پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبہ و طالبات میں تقریباً 80 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔