لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) بہاولپور میں انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل بھونگ میں اگست 2021 میں ایک مندر پر حملے اور توڑ پھوڑ کا جرم ثابت ہونے پر 22 ملزمان کو پانچ پانچ برس قید اور چار لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
جرمانے کی عدم ادائیگی پر ملزمان کو دیگر دفعات کے تحت مجموعی طورپر 11،11 ماہ مزید قید بھگتنی ہو گی جبکہ عدالت نے 62 ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جرمانے کی رقم متاثر ہونے والے مندر کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے گی۔
یہ واقعہ چار اگست 2021 کو پیش آیا تھا۔ اس وقت سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے ہیں۔
اس واقعے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا۔
ملزمان پر الزام تھا کہ اُنھوں نے 4 اگست 2021ء کو بھونگ میں مندر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس کا مقدمہ تھانہ بھونگ میں 84 ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے جرم ثابت ہونے پر 22 ملزمان شفیق، شیراز، لطیف، فاروق، غلام عباس، دھنی بخش، بخشہ، عبدالحکیم، اسامہ، ابوبکر، محمد خان، محمد اکبر، خدا بخش، شاہد حسین، محمد علی، محمد جہانگیر، نذیر احمد، محمد آصف، شاہ میر، امیر دین، فخر عباس اور مطلوب احمد کو جرم ثابت ہونے پر پانچ پانچ سال قید اور چار چار لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔
ملزمان کو جرمانے کی سزا مقدمے میں عائد کی گئی تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 148، 149، 353، 427 اور 295 کے تحت سنائی گئی۔
یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا وہاں ہندو برادری کے 80 مکانات اس مندر کے گرد ہی موجود ہیں۔ علاقے میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔
تاہم حکام کے مطابق اس قسم کا کوئی واقعہ یہاں اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔
بھونگ تھانے کے ایک اہلکار کے مطابق مقامی مندر میں مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس پر بھی پتھراؤ کیا۔
مندر پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی سماعت کے دوران کہا تھا کہ اگر مندر کی جگہ مسجد کو گرا دیا جاتا تو پھر مسلمانوں کے کیا جذبات ہوتے؟
انھوں نے کہا تھا کہ اس واقعے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ مجرم ثابت ہونے والے افراد سے مندر کی دوبارہ تعمیر پر آنے والے اخراجات بھی لیے جائیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کے علاقے کرک میں بھی ہندوؤں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچانے کے مقدمے میں بھی عدالت نے ذمہ دار افراد سے ان مقدس مقامات کی دوبارہ تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات لینے کا حکم دیا تھا۔
مندر پر حملے کی وجہ کیا تھی؟
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کو علاقے میں 23 جولائی کو پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑا تھا جس میں ایک آٹھ سالہ بچے پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا۔
پولیس کے مطابق 24 جولائی کو اُنھوں نے ایک آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا کیونکہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آ کر پیشاب کیا۔
پولیس کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور بچے کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس اے ایس آئی کے مطابق چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی، مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر 28 تاریخ کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ لڑکے کو چھوڑنے کے بعد علاقے میں دوبارہ سے بے چینی شروع ہو گئی۔
’شام کو چار بجے سی پیک کا روڈ 25 کے قریب لوگوں نے بلاک کیا۔ میں نے ایڈیشنل آئی جی کو بتایا۔ ساڑھے چھ بجے انھوں نے مندر پر حملہ کیا تھا۔ گھروں میں جانے کی کوشش کی۔ پھر رینجرز کو بلایا گیا۔‘
بعد میں سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو اس ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جس نے آٹھ سالہ ہندو بچے کو گرفتار کرکے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا تھا۔
عدالت نے پولیس کو ایک ہفتے کے اندر اندر ذمہ داروں کی شناخت کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور بے گناہ افراد کو کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت کو بتایا تھا کہ علاقہ مکینوں کے مطابق پولیس نے اس مقدمے میں متعدد بے گناہ افراد کو بھی حراست میں لیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو اس مقدمے کی پیروی کے لیے پراسیکیوٹر مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو اس مقدمے کا فیصلہ چار ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔