کولمبو (ڈیلی اردو/بی بی سی) سری لنکا میں تباہ کن معاشی بحران سے نمٹنے کی ناکام حکومتی کوششوں کے خلاف جاری مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے والے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں۔
سری لنکن فوج نے تصدیق کی ہے کہ صدر کے بڑے بھائی اور خود دو مرتبہ صدر رہنے والے مہندا راجاپکشے ملک کے شمال مشرق میں حفاظت کی غرض سے ایک بحری اڈے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ملک گیر کرفیو کے باوجود مختلف شہروں میں آتش گیر مادے سے حملے جاری ہیں اور کولمبو کے قریب دکانوں اور سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کے بیٹے کی ایک نجی تفریح گاہ کو نذر آتش کر دیا گیا۔
صدر گوتابایا راجاپکشے نے ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کیا ہے جس میں انھوں نے قانون کی عملداری بحال کرنے کا عزم دہرایا ہے۔
تقریر میں اپنے استعفے کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے صدر راجاپکشے نے کچھ اختیارات پارلیمان کو دینے اور نئے وزیراعظم کی تقرری کی پیشکش کی تاہم اس حوالے سے انھوں نے کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا۔
گوتابا راج پکشے کے بھائی مہندا راج پکشے نے ایندھن اور خوراک کی قلت پر عوامی غصے اور احتجاج کے بعد پیر کو استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ بحریہ کے ایک اڈے میں چھپے ہوئے ہیں۔
پیر سے جاری بدامنی کے واقعات میں کم از کم نو افراد ہلاک اور تقریباً 200 زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب حکومت کے حامیوں نے ان مظاہرین پر حملہ کیا جو مطالبہ کر رہے تھے کہ سابق وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی صدر گوتابایا راجا پاکشے اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں۔
حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ دینے کے لیے تشدد کے واقعات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے بھی ممکنہ بغاوت کی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔
تاہم فوج نے اس بات کی تردید کی ہے۔
سکریٹری دفاع کمل گنارتنے نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جب ملک میں خطرناک صورتحال ہوتی ہے تو فوج کو اس سے نمٹنے کے لیے اختیارات دیے جاتے ہیں۔
’کبھی یہ مت سوچیں کہ ہم اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
سری لنکا میں سنگین مالی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے کئی ہفتوں سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سری لنکن روپے کی قدر بہت گر چکی ہے اور خوراک، ایندھن اور طبی سامان جیسی بنیادی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
پیر اور منگل کی رات سب سے زیادہ تباہی دارالحکومت کولمبو کے شمال میں ہوئی جہاں حریف گروپوں نے نیگومبو قصبے میں دکانوں کو آگ لگا دی۔
پیر کی رات کو ہجوم نے سیاست دانوں کے 50 سے زائد مکانات جلا دیے، جب کہ ملک کے جنوب میں ان کے روایتی مرکز، ہمبنٹوٹا میں راجا پاکشے خاندان کے لیے وقف ایک متنازعہ میوزیم کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
بدھ کو تیسرے دن بھی دکانیں، کاروبار اور دفاتر بند رہے۔
سری لنکا کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اب آن لائن منتقل کر دیا گیا ہے۔
دارالحکومت کولمبو کو سڑکیں اس ہفتے کے ہنگامہ آرائی کا ثبوت دیتی ہیں اور یہاں پر پولیس اور فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔
کولمبو کی سڑکیں اس ہفتے کے ہنگامہ آرائی کا ثبوت دیتی ہیں – پولیس کی بھاری موجودگی اور سڑکوں پر فوج۔ پیر کو ہونے والے تشدد کے واقعات میں یہاں کئی بسوں کو جلا دیا گیا تھا۔
کرفیو کے باوجود کولمبو کے مرکزی احتجاجی مقام گال فیس گرین پر مظاہرین جمع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ صدر راجا پکشے نے معیشت کو بری طرح خراب کیا ہے اور انھیں برطرف ہونا چاہیئے۔
وہ راجا پکشے خاندان کے آخری فرد ہیں جو اب بھی حکومت میں ہیں۔ اس سے پہلے ان کے بھائی وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
جنگی ہیروز سے ولن بننے تک
سری لنکا کے باشندوں کو اب بھی تشدد کا سامنا ہے۔ بہت سے سیاستدان محفوظ گھروں میں پناہ لے چکے ہیں یا عوام میں آنے سے گریز کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے تک میڈیا کے وزیر رہنے والے نالاکا گوداہیوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ بالکل بھی محفوظ نہیں ہے، خاص طور پر ان سیاست دانوں کے لیے جو حکومت کے ساتھ ہیں۔ مشتعل ہجوم نے ان کے گھر کو بھی جلا دیا تھا۔
مہندا راجا پاکشے، جنھیں کبھی سنہالی اکثریت نے تامل ٹائیگر باغیوں کو شکست دینے کے لیے جنگی ہیرو قرار دیا تھا، اچانک ایک ولن بن گئے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے حامیوں پر حکومت مخالف مظاہرین کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا۔
راجا پاکشے خاندان ہمیشہ ایک ساتھ کھڑا رہا ہے لیکن اس بار ان کے اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب گوٹابایا نے خاندان کے سرپرست مہندا کو استعفیٰ دینے کا کہا۔
دیکھنا یہ ہے کہ برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہنے والا یہ خاندان اب کس طرح اس بحران پر قابو پاتا ہے۔