برسلز (ڈیلی اردو) یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ تہران کے ساتھ حالیہ بات چیت کے بعد ایران کے جوہری معاہدے پر تعطل کا شکار مذاکرات بحال ہوگئے ہیں اور اب حتمی معاہدہ قریب ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق جوزف بوریل نے کہا کہ رواں ہفتے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں مدد کے لیے یورپی یونین کے ایلچی اینریک مورا کا مشن ’توقع سے بہتر‘ تھا۔
#UPDATE Stalled negotiations over Iran's nuclear programme have been unblocked after fresh talks in Tehran, EU foreign policy chief Josep Borrell said on Friday, adding that he believed a final deal was within reach https://t.co/pDHhgtvxv5 pic.twitter.com/efJoaL1Pyl
— AFP News Agency (@AFP) May 13, 2022
جرمنی میں جی 7 اجلاس کی سائیڈلائن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جوزف بوریل نے کہا کہ بات چیت رکی ہوئی تھی جو اب بحال ہو چکی ہے اور اب حتمی معاہدے تک پہنچنے کا امکان ہے‘۔
یورپی یونین کے ایلچی اینریک مورا نے ایران کے مذاکرات کار علی بغیری سے روان ہفتے تہران میں دو دن تک ملاقاتیں کیں۔
دریں اثنا قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے جمعرات کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تاکہ پیشرفت کو آگے بڑھایا جا سکے۔
یاد رہے کہ 2015 میں طے پانے والے معاہدے میں ایران کو جوہری مقامات پر تنصیبات کو بند کرنے یا ان میں ترمیم کرنے اور بین الاقوامی جوہری معائنہ کاروں کو تنصیبات کے دوروں کی اجازت دینے اور کوئی جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کی ضمانت لی گئی تھی۔ اس کے بدلے میں ایران پر سے کئی بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔
جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام سے پہچانے جانے والے اس معاہدے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018 میں یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دی تھیں جس کے بعد ایران نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔
ٹرمپ کی دفتر سے رخصتی کے بعد معاہدے کو بحال کرنے کے لیے دوبارہ کوششیں شروع ہوئیں اور ویانا میں ایک سال سے جاری مذاکرات کے دوران اینرک مورا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
مذاکرات کے اہم نکات میں سے ایک تہران کا امریکا سے ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ ہے۔
جوزف بوریل نے کہا کہ اس طرح کے اختلافات کہ ’پاسداران انقلاب کے بارے میں کیا کرنا ہے‘ کی وجہ سے مذاکرات میں پیشرفت دو ماہ تک رکی رہی۔
انہوں نے کہا کہ اینرک مورا، تہران کے پاس یورپی یونین کا یہ پیغام لے کر گئے کہ ’ہم اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ تہران کی طرف سے جواب مثبت آیا ہے، اس طرح کے مسائل راتوں رات حل نہیں ہوسکتے، ایسے کہا جاسکتا ہے کہ بات چیت کے دروازے بند تھے جو اب کھل گئے ہیں۔
جوزف بوریل نے اینرک مورا کے اس ٹوئٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ انہیں جرمن پولیس نے انہیں فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر مختصر وقت کے لیے روکا تھا اور صرف یہ کہا کہ ’مسئلہ ختم ہوگیا ہے‘۔
اینرک مورا نے جمعہ کے روز ٹوئٹر پر کہا تھا کہ برسلز واپس جاتے ہوئے انہیں جرمن پولیس نے اپنے پاس روکا تھا اور اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری مشن پر موجود یورپی یونین کے عہدیدار کے پاس اسپین کا سفارتی پاسپورٹ تھا۔
Retained by the German police at the Francfort airport on my way to Brussels, back from Teheran. Not a single explanation. An EU official on an official mission holding a Spanish diplomatic passport. Took out my passport and my phones.
— Enrique Mora (@enriquemora_) May 13, 2022
پولیس سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہیں ابھی تک ’ویانا کنونشن کی بظاہر خلاف ورزی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملی‘۔
Now released along with with my two colleagues, the EU Ambassador to UN Vienna and the head of the EEAS Iran task force. We were kept separated. Refusal to give any explanation for what seems a violation of the Vienna Convention.
— Enrique Mora (@enriquemora_) May 13, 2022
جرمن پولیس کی جانب سے اس معاملے سے متعلق فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔