اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) لاپتہ صحافی مدثر نارو کی بازیابی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے میں ریاست لاتعلق نظر آتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے ورثا اور اہلخانہ احتجاج کر رہے ہیں اور عدالتی حکم پر یہ معاملہ کابینہ کو بھی بھجوایا گیا مگر کچھ نہ ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت متعلقہ درخواستوں پر فیصلہ کرنا چاہتی ہے لیکن بادی النظر میں ریاست کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔
مدثر ناور کے مقدمے کی پیروی کرنے والی وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ کے متعقلہ حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن ان کے مؤکل کی بازیابی سے متعلق ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر ہی سابق وزیراعظم عمران خان سے مدثر ناور کے اہلخانہ کی ملاقات کروائی گئی اور اس ملاقات میں سابق وزیر اعظم کی طرف سے ان کے مؤکل کے اہلخانہ کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی لیکن اس پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
’یہ عدالت بے بس نہیں، ہم دیگر چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں‘
اس مقدمے کی سماعت کے دوران سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھی موجود تھے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے مقدمات چل رہے ہیں اور آپ بھی وزیر داخلہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’بتائیں کہ عدالت اس معاملے میں کیا کرے؟‘ جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے تئیں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز موجود ہیں جن میں ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے۔
انھوں نے کہا کہ اکثر کیسز میں مسنگ پرسنز حراستی مراکز میں رکھے گئے ہیں اور ماضی میں جبری گمشدگیاں ریاستی پالیسی کا بھی حصہ رہی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں کہ ان واقعات میں خفیہ اداروں کے اہلکار ملوث ہیں جبکہ خفیہ اداروں کے اہلکار کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے پاس نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بنیادی حقوق کا معاملہ ہو اور ریاست ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے تو عدالت کردار ادا کر سکتی ہے۔
جبری طور پر لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ مسنگ پرسنز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کر کے انھیں سزائے موت دی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ مسنگ پرسنز تو نہ ہوئے، ان کو گرفتار کر کے کارروائی کی گئی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ وہ لوگ لاپتہ تھے جن کے بارے میں بیان حلفی دیا گیا کہ وہ ایجنسیوں کے پاس نہیں اور پھر کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ ان کی ہی تحویل میں تھے اور ان سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔
چیف جسٹس نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیزوں کو مکس نہ کریں، جب ان کا ٹرائل ہوا تو وہ لاپتہ نہ رہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ بے بس عدالت نہیں کہ صرف پیٹیشن کی استدعا کو دیکھے، ہم دیگر چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘
’کمیشن کام ہی نہیں کر رہا تو اسے ختم کر دیا جائے‘
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئیں اور کہا کہ جب جبری گمشدگیوں کے معاملے کو دیکھنے والا کمیشن کام ہی نہیں کر رہا تو بہتر ہے کہ اس کو ختم ہی کر دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا کمیشن بند گلی کی طرف چلا گیا ہے، کمیشن کی طرف سے دو سو کے قریب پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے مگر کچھ نہ ہوا اور پھر ایسے حالات میں متاثرہ خاندان کہاں جائیں؟
آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے معاملات کو دیکھنے والے کمیشن کی کارکردگی ایسی ہے جو اپنی رپورٹس اور پروڈکشن آرڈر تک متاثرہ خاندانوں کو نہیں دیتا۔‘
انھوں نے کہا کہ سینکٹروں کی تعداد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور کمیشن کے پاس ان افراد کے بارے میں تمام تفصیلات جمع کروائی گئی ہیں تاہم ان کی بازیابی کے لیے اقدامات نہیں کیے جارہے ۔
انھوں نے کہا کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو مبینہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ افراد اپنے ہی ملک میں عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس معاملے کا بھی نوٹس لیا ہے اور انھوں نے سابق حکومت کو ہدایات دی تھیں کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کو ہی ختم کیا جائے اور اس کی جگہ مفاہمتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کی تشکیل اور اس کے ٹی او آرز کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وزارت کے بارے میں منفی تاثر ہے، اہم کمیشن کی رپورٹ ہی غائب ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت چاہتی ہے کہ دلائل سننے کے بعد مؤثر فیصلہ سُنائے تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے ان درخواستوں کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔