دہشت گردوں کی مالی معاونت کیس: علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک مجرم قرار

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ایک مبینہ معاملے میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما اور قوم پرست جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو مجرم قرار دے دیا ہے۔

عدالت کے جج پریوین سنگھ نے بتایا کہ سزا کا تعین کیس کی آئندہ سماعت پر 25 مئی کو ہو گا۔ غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت درج کیے گئے اس مقدمے میں مجرم کو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

جمعرات کو نئی دہلی میں کیس کی سماعت کے دوران جج نے فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے حکام سے کہا کہ وہ یاسین ملک کی مالی صورتِ حال کا جائزہ لیں تاکہ عدالت ان پر عائد کیے جانے والے جرمانے کا درست تعین کرسکے۔

بھارتی کے ذرائع ابلاغ نے گزشتہ ہفتے یہ خبر دی تھی کہ یاسین ملک نے نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت میں ان پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے ، ان سرگرمیوں کے لیے رقوم جمع کرنے، دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے اور ملک سے غداری کے الزامات کو تسلیم کیا تھا۔ البتہ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے بھارتی ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کو غلط اور حقائق کے منافی قرار دیا تھا۔

ان دونوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یاسین ملک نے عدالت میں جرم قبول نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی آزادی کے لیے انگریزوں سے لڑے تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یاسین ملک نےعدالت کو آگاہ کیا تھا کہ عدلیہ حکومتِ بھارت کی ایما پر انہیں جھوٹے مقدمات میں مجرم ٹھہرا کر سزا کے لیے غلط طریقہ استعمال کر رہی ہے۔ لہٰذا وہ احتجاجاََ اپنے دفاع میں وکیل مقرر نہیں کر رہے ۔

نئی دہلی میں قائم خصوصی عدالت نے قبل ازیں یاسین ملک اور 15 دیگر ملزمان کے خلاف دہشت گردوں کی مبینہ مالی معاونت کے الزام میں 2017 میں درج کیے گئے ایک کیس میں فردِ جرم عائد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

فردِ جرم کے مطابق یاسین ملک اور ان کے ساتھی دنیا بھر میں ایک ایسا جامع نظام اور طریقہ کار بنا چکے تھے جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں تحریک ِ آزادی کے نام پر دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے خطیر رقم جمع کی جا سکے۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید مفرور قرار

عدالت نے کشمیر کے دیگر 10 علیحدگی پسند رہنماؤں اور کارکنوں فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم، محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین ، آفتاب احمد شاہ ہلالی عرف شاہد السلام، الطاف احمد شاہ عرف فنتوش، نعیم احمد خان، محمد اکبر کھانڈے، راجہ معراج الدین کلوال، بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ، سابق رکنِ اسمبلی انجینئر عبد الرشید شیخ اور تاجر ظہور احمد وٹالی اور نول کشور کپور کے خلاف بھی فردِ جرم عائد کی تھی۔

کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف بھی چار شیٹ دائر کی گئی تھی البتہ استغاثہ نے انہیں اور ایک اور ملزم عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو مفرور قرار دیا تھا۔

دخترانِ ملت نامی کشمیری خواتین کی تنظیم کی سربراہ آسیہ اندرابی، پریس فوٹو گرافر کامران یوسف اور ایک اور ملزم جاوید احمد بٹ کو الزمات سے بری کر دیا گیا ہے۔

این آئی اےکو بھارت میں دہشت گردی کے خلاف ٹاسک فورس کی حیثیت حاصل ہے۔اس ایجنسی کو ملک کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے مبینہ دہشت گردی کے واقعے کی اجازت حاصل کیے بغیر تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

گزشتہ دنوں بھارت کے خبر رساں اداروں ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ یاسین ملک نے ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو تسلیم کیا ہے۔

بھارت کے خبر رساں ادارے ‘دی پرنٹ’ نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ ایمیکس کوریا یا غیر جانب دار شخص کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ یاسین ملک نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کا دفاع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ سزا کا سامنا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

کشمیر کی علیحدگی پسند تنظیم کے 54 سالہ یاسین ملک گزشتہ تین برس سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت جموں و کشمیر اور نئی دہلی کی عدالتوں میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔

جج کی جانب سے فیصلہ سامنے آنے کے بعد جمعرات کو جب یاسین ملک کو پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں عدالت سے واپس تہاڑ جیل لے جایا جا رہا تھا، تو عدالت کے باہر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے گناہ قبول کر رہے ہیں اور کیا وہ کچھ کہنا چاہیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ مجھے اس کی اجازت دیتے ہیں تو میں بولوں گا اور میں بات کرنا بھی چاہتا ہوں۔

یاسین ملک کو عدالت سے سزا سنائے جانے سے قبل پاکستان میں بھارت کے ایلچی کو دفترِ خارجہ طلب کرکے اس معاملے میں اسلام آباد کے احتجاج پر مبنی ایک نوٹ دیا گیا تھا۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ بھارتی سفارت کار کو بتایا گیا کہ اسلام آباد یاسین ملک کو جھوٹے الزامات کے تحت فرضی کیس میں پھنسانے کی مذمت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر کے رہنماؤں کی آواز دبانے کے لیے بھارتی حکومت کی جانب سے فرضی کیسز میں پھنسانے کے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔

قبل ازیں مشعال ملک الزام عائد کر چکی ہیں کہ انہیں بھارت کے ہاتھوں اپنے شوہر کے عدالتی قتل کا خدشہ ہے۔ انہوں نے عالمی اداروں سے اُن کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے کی اپیل کی تھی۔ انہوں سے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی مہم شروع کی ہوئی ہے۔

بھارت کی حکومت نے تا حال پاکستان کے الزامات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم ماضی میں نئی دہلی کئی بار یہ کہا چکا ہے کہ بھارت میں عدلیہ پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے ، وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور قانون کی بالادستی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے۔

یاسین ملک کے مقدمے کی گونج برطانوی پارلیمان میں

جے کے ایل ایف نے لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔

منگل کو برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ یاسین ملک کے مقدمے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

برطانوی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق سوالات و جوابات کے دوران برطانوی نائب وزیرِ خارجہ طارق احمد نے کہا کہ ان کے ملک کی طرف سےوقتاً فوقتا انسانی حقوق کے بارے میں متعلقہ ممالک سے تعمیری انداز میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

پاکستانی نژاد ڈیموکریٹ لارڈ قربال حسین نے یاسین ملک کے بارے میں استفسار کیا کہ اس سلسلے میں برطانوی حکومت کیا کر رہی ہے؟

تو لارڈ طارق احمد نے کہا کہ جہاں تک یاسین ملک کے کیس کا معاملہ ہے تو اس کی بہت قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان پر بھارتی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اس لیے بھارت کے آزاد عدالتی عمل میں براہِ راست مداخلت نہیں کی جا سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں