اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغان صحافی مہریا برکی گزشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد میں افغان شہریوں کے لیے آواز بلند کرنے والے احتجاجی کیمپ کا حصہ ہیں۔ وہ تین ماہ قبل پاکستان آئی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان میں بطور صحافی کام کر سکیں۔ تاہم انہیں تاجک برادری سے تعلق رکھنے کی بنا پر پشتو اور اردو زبان کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ میک اپ آرٹسٹ بھی ہیں اور وہ اس شعبے میں اپنی خدمات فراہم کر سکتی ہیں لیکن انہیں ویزا کی تجدید اور ورک پرمٹ جیسے مسائل درپیش ہیں۔
طالبان کے خوف سے پاکستان میں نقل مکانی کرنے والے دیگر افغان صحافیوں کی کہانی مہریا برکی سے مختلف نہیں ہے۔
افغانستان کے صوبہ خوست سے تعلق رکھنے والے سلیمان زوندے کا شمار بھی انہی صحافیوں میں ہوتا ہے جنہیں گزشتہ برس 15 اگست کے بعد ہونے والے حالات و واقعات کے باعث اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔
پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی تازہ رپورٹ میں گزشتہ برس طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان آنے والے صحافیوں کی فوری مدد کرنے پر زور دیا ہے۔
ANNOUNCEMENT#FreedomNetwork will launch research report “Afghan Exiled Journalists in Pakistan: Lives In Limbo” tomorrow. The report findings underline urgent humanitarian assistance & may help decision-makers to extend helping hands to these journalists.#JournalismIsNotACrime pic.twitter.com/Ox6ArvqyVD
— Freedom Network | فریڈم نیٹ ورک (@pressfreedompk) May 17, 2022
رپورٹ کے مطابق 74 فی صد افغان صحافی پاکستانی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے اپنا صحافتی کریئر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد متعدد افغان صحافیوں نے فریڈم نیٹ ورک سے رُجوع کیا۔ اُن کے بقول تنظیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ افغان باشندوں کو پاکستان میں کیا مسائل درپیش ہیں۔
اقبال خٹک کے بقول پاکستان میں افغان باشندوں کے لیے سب سے بنیادی مسئلہ کرونا سرٹیفیکیٹ کا حصول ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق اس وقت پاکستان میں آئے ہوئے افغان صحافیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں معلومات نہیں ہیں تاہم یہ بات تو طے ہے کہ ان تمام افراد کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔
اُن کے بقول پاکستان آنے والے افغان صحافیوں اور دیگر باشندوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ جتنی رقوم لائے تھے وہ تیزی سے خرچ ہو رہی ہیں۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ افغان باشندے پاکستان میں بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے جب کہ ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ دیگر ملکوں سے آن لائن رقوم بھی نہیں منگوا سکتے۔
مہریا برکی کہتی ہیں کہ وہ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ سے متفق ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے سرکاری ٹی وی ‘ملی ٹی وی’ سے وابستہ تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ کابل نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ تاہم طالبان بطور فری لانس صحافی بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے اُن کی خبروں سے نالاں تھے۔ کئی بار اُنہیں بلا کر وارننگ بھی دی گئی جس کے باعث وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔
سلیمان زوندے کے مطابق اس وقت وہ پشاور میں مقیم ہیں۔ یہاں کے کچھ ادارے ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ ماضی میں ان اداروں کے ساتھ کابل سے منسلک رہے تھے۔ تاہم ان کا ویزا ختم ہو چکا ہےاور پاکستان میں کام کرنے کے لیے ویزا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ نے افغان صحافیوں کو درپیش مسائل کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تاہم خبر کی اشاعت تک دفتر خارجہ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان میں موجود افغان باشندے
اقوام متحدہ کے ادار برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرد افغان مہاجرین کی کُل تعداد 14 لاکھ ہے۔
ادارے کے مطابق تقریباً نو لاکھ افغان سٹیزن کارڈ رکھتے ہیں جب کہ سات سے آٹھ لاکھ افغان شہری بغیر کسی دستاویز کے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یو این ایچ سی آر پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ 15اگست کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افغان باشندوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔
قیصر خان آفریدی نے مزید بتایا کہ اس وقت حکومتِ پاکستان نئے افغان شہریوں کو مہاجر کا درجہ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ تاہم وہ پاکستانی حکومت سے رابطے میں ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے نئے افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی نئی راہ نکالی جائے۔
فریڈم نیٹ ورک کے چیف ایگزیٹو اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ افغان باشندوں خصوصا صحافیوں کے مسائل تب ہی حل ہو سکتے ہیں جب پاکستانی حکومت انہیں بطور مہاجر قبول کرلے۔