پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے قریب ضلع نوشہرہ میں پولیس نے ایک نجی ہسپتال کے ڈاکٹر طارق خلیل کو توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جہاں سے ملزم کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
پیر کو درج ہونے والے مقدمے میں نوشہرہ کی عدالت نے مزید تحقیقات کے لیے جسمانی ریمانڈ دینے کی پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے حکام کو انتہائی محتاط انداز سے الزامات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔
ضلع نوشہرہ کے تحصیل پبی میں تھانے کے ایس ایچ او سلیم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک نجی اسپتال کے ڈاکٹر پر مذہب کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں ہفتے کو پشاور سے تعلق رکھنے والے سجاد خان نامی شخص نے مقدمہ درج کرنے کی تحریری درخواست دی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ اس تحریری درخواست پر دو گواہوں کے دستخط بھی تھے جنہوں نے ابتدائی تحقیقات کے دوران درخواست گزار کے مؤقف کی تائید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد اعلیٰ حکام کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی اس درخواست پر باقاعدہ مقدمہ درج کرکے ملزم ڈاکٹر کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
تحریری درخواست اور درج مقدمے کے مطابق نجی اسپتال کے ڈاکٹرنے مبینہ طور پر متعدد افراد کے سامنے مذہبِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ اسی بنیاد پر ان کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کی دفعات 295 اے اور دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پولیس افسر سلیم خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کیس کی حساسیت کے پیشِ نظر ضلعی سطح کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم اب اس مقدمے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
اس بارے میں نوشہرہ تحصیل کے پولیس افسر اسماعیل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کیس کی تفتیش کی جاری ہے اور مزید تفصیلات تفتیش مکمل کرنے کے بعد جاری کی جائیں گی۔
پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر ملک کے توہینِ مذہب سے متعلق قوانین پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
اندرون ملک بہت سے حلقے اس قانون کا از سر نو جائزہ لینے کے مطالبات کرتے آئے ہیں اور اقوام متحدہ کے بعض اداروں سمیت انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔