نئی دہلی (وی او اے/ڈیلی اردو) بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف ) کے سربراہ یاسین ملک کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور اس میں معاونت کے جرم میں دو بار عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
یاسین ملک کو سزا سنائے جانے سے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرینگر کے کئی علاقوں میں مکمل شٹ ڈاؤن کیا گیا۔
یاسین ملک سمیت دیگر 15 افراد پر 2017 میں دہشت گردوں کی فنڈنگ کا مقدمہ درج تھا۔
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی نئی دہلی میں قائم خصوصی عدالت نے 19 مئی کو یاسین ملک اور دیگر 15 ملزمان کو 2017 میں دہشت گردی کی فنڈنگ کے حوالے سے درج مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔
عدالت نے 19 مئی کو سماعت کے موقع پر یاسین ملک اور دیگر افراد کو سزا سنانے کے لیے 25 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ عدالت نے جرمانے کے تعین کے لیے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) حکام کو یاسین ملک کی مالی صورتِ حال کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی تاکہ عدالت ان پر عائد کیے جانے والے جرمانے کا درست تعین کرسکے۔
بدھ کو عدالت نے سزا کے تعین کے لیے سماعت شروع کی تھی این آئی اے نے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی استدعا کی تھی۔البتہ عدالت نے یاسین ملک کو دو بار عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ان کے وکیل کے مطابق یاسین ملک سزا کے خلاف اپیل کرسکیں گے۔
کشمیری رہنما یاسین ملک پر جو مقدمات قائم کیے گئے تھے بھارتی قوانین کے مطابق ان کی زیادہ سے زیادہ سزا موت اور کم از کم عمر قید ہے۔
این آئی اے بھارت میں انسدادِ دہشت گردی کی ٹاسک فورس ہے اور اسے ملک کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے مبینہ دہشت گردی کے واقعے کی از خود تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اس ادارے کو تحقیقات کے لیے متعلقہ صوبائی اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کی انتظامیہ کی اجازت بھی ضروری نہیں ہے۔ بھارت کی وزارتِ داخلہ کے ایک حکم نامے کے مطابق این آئی اے خصوصی عدالتوں میں ملزمان کے خلاف مقدمے بھی چلاسکتی ہے۔
یاسین ملک کا وکیل مقرر کرنے سے انکار
واضح رہے یاسین ملک نے کچھ عرصہ پہلے عدالتی کارروائی کے دوران کہا تھا کہ عدالت بھارتی حکومت کی ایما پر انہیں جھوٹے الزامات میں مجرم ٹھہراکر سزا دینے کے لیے غلط طور طریقہ استعمال کررہی ہے۔ اس لیے وہ احتجاجاً اپنے دفاع میں وکیل مقرر نہیں کریں گے۔
یاسین ملک کی طرف سے بار بار اپنا وکیل مقرر نہ کرنے کا مؤقف اختیار کرنے کے بعد جج نے از خود ان کے لیے عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔
’جدوجہد کے لیے ہتھیار ترک کردیے تھے‘
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالت کی جانب سے سزا کا فیصلہ سنانے سے قبل اپنے بیان میں یاسین ملک نے کہا کہ آٹھ جولائی 2014 کو کشمیری عسکری کمانڈربرہان وانی کی ہلاکت کے بعد انہیوں 30 منڈ کے اندر گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یاسین ملک نے عدالت میں کہا کہ وہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جموں و کشمیر میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی مزاحمت میں کسی بھی طرح ملوث نہیں تھے۔
انہوں ںے عدالت میں کہا کہ وہ 1994 میں کشمیر کی آزادی کے لیے بندوق کا استعمال ترک کرچکے تھے اور اس کے بعد مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے اصول کو اپنا کر کشمیر میں سیاست کررہے تھے۔
یاسین ملک نے کہا کہ بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انہیں پاسپورٹ فراہم کیا تھا اور بھارت نے غیر ممالک کا دورہ کرنے، اہم رہنماؤں سے ملنے، بیانات دینے اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی تھی کیوں کہ میں ایک مجرم نہیں تھا۔
’عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا‘
کشمیری رہنما یاسین ملک نے کہا کہ انہوں نے بھارت کے سات وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا ہے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیز کو چیلیج کیا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ گزشتہ 28 برسوں کے دوران کسی پُر تشدد یا عسکری کارروائی میں ملوث رہے ہوں۔
انہوں نے این آئی اے کی طرف سے سزائے موت دینے کے مطالبے کے جواب میں کہا “میں عدالت سے کسی چیز کے لئے بھیک نہیں مانگوں گا۔ اگر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ میں گزشتہ اٹھائیس برس کے دوراں کسی دہشت گرد کارروائی میں ملوث رہا ہوں تو میں سیاست کو خیر باد کہہ دوں گا اور سزائے موت کو بھی قبول کروں گا “۔
این آئی اے کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے جب عدالت کو بتایا کہ یاسین ملک وادیٔ کشمیر سے اقلیتی برہمن ہندو فرقے یا کشمیری پنڈتوں کے انخلا کے بھی ذمہ دار ہیں تو اس پر جج کا کہنا تھا :”ہمیں اس طرح کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہیے۔ یہ دہشت گردی کی مالی معاونت کا مقدمہ ہے اور ہمیں اس کے حقائق کے اندر رہ کر بات کرنی چاہیے”۔
سرینگر میں کیا ماحول ہے؟
وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق بُدھ کو سری نگر میں یاسین ملک کے آبائی علاقے مائسیمہ اور شہر کے کئی دوسرے حصوں میں ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر دکانیں اور دوسرے کاروباری ادارے بند رہے۔ تاہم پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سڑکوں پر معمول کے مطابق جاری تھا۔
یاسین ملک کوعدالت کی طرف سے عمر قید کی سزا دینے کی خبر آئی تو سری نگر کے ساتھ ساتھ وادیٔ کشمیر کے کئی علاقوں میں بھی تاجروں نے اپنی کاروباری سرگرمیاں معطل کردیں اور سڑکوں پر سے گاڑیاں غائب ہونے لگیں۔
یاسین ملک کے گھر کے صحن میں اُن کی رشتے دار وں اور پڑوسیوں پر مشتمل خواتین جمع تھیں اور ان کی ایک بہن مکان کی ایک کھڑکی پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی۔
مکان کے باہر جمع یاسین ملک کے حامیوں نے اُن کے اور بھارت سے کشمیر کی آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگائے۔
اس موقعے پولیس ڈرون اس گنجان آبادی والے علاقے کا گشت لگاتے نظر آئے۔ بعد ازاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوا۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔
دارالحکومت اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی دوسرے حساس شہروں اور علاقوں میں سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں
اعترافِ جرم کیا یا نہیں؟
جج کی جانب سے فیصلہ سامنے آنے کے بعد جمعرات کو جب یاسین ملک کو پولیس اہل کاروں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں عدالت سے واپس تہاڑ جیل لے جایا جا رہا تھا، تو عدالت کے باہر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے گناہ قبول کر رہے ہیں اور کیا وہ کچھ کہنا چاہیں گے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ لوگ مجھے اس کی اجازت دیتے ہیں تو میں بولوں گا اور میں بات کرنا بھی چاہتا ہوں۔
کشمیر کی علیحدگی پسند تنظیم کے 54 سالہ یاسین ملک گزشتہ تین برس سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت جموں و کشمیر اور نئی دہلی کی عدالتوں میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔
دہشت گردوں کی مبینہ مالی معاونت کے کیس میں جن دیگر افراد پر فردِ جرم عائد ہوئی تھی ان میں فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم، محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین ، آفتاب احمد شاہ ہلالی عرف شاہد السلام، الطاف احمد شاہ عرف فنتوش، نعیم احمد خان، محمد اکبر کھانڈے، راجہ معراج الدین کلوال، بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ، سابق رکنِ اسمبلی انجینئر عبد الرشید شیخ اور تاجر ظہور احمد وٹالی اور نول کشور کپور شامل ہیں۔
کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف بھی چار شیٹ دائر کی گئی تھی تاہم استغاثہ نے انہیں اور ایک اور ملزم عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو مفرور قرار دیا تھا۔’دخترانِ ملت’ نامی کشمیری خواتین کی تنظیم کی سربراہ آسیہ اندرابی، پریس فوٹو گرافر کامران یوسف اور ایک اور ملزم جاوید احمد بٹ کو الزمات سے بری کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت کے خبر رساں اداروں ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ یاسین ملک نے خود پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو تسلیم کیا ہے۔
عدالت کی جانب سے یاسین ملک کو مجرم قرار دیے جانے سے قبل پاکستان میں بھارت کے ایلچی کو دفترِ خارجہ طلب کرکے اس معاملے میں اسلام آباد کے احتجاج پر مبنی ایک نوٹ دیا گیا تھا۔
اس نوٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ “اسلام آباد یاسین ملک کو جھوٹے الزامات کے تحت فرضی کیس میں پھنسانے کی مذمت کرتا ہے۔”
پاکستانی فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے اپنے ایک بیان میں یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کی مذمت کی ہے۔
Pakistan strongly condemns life sentence awarded to Yasin Malik on fabricated charges. Such oppressive tactics cannot dampen the spirit of people of Kashmir in their just struggle against illegal Indian occupation. We stand with them in quest for self-determination as per UNSCRs
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) May 25, 2022
قبل ازیں کشمیری رہنما کی اہلیہ مشعال ملک الزام عائد کر چکی ہیں کہ انہیں بھارت کے ہاتھوں اپنے شوہر کے عدالتی قتل کا خدشہ ہے۔ انہوں نے عالمی اداروں سے اُن کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے کی اپیل کی تھی۔
بھارت کی حکومت نے تا حال پاکستان کے الزامات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم ماضی میں نئی دہلی کئی بار یہ کہا چکا ہے کہ بھارت میں عدلیہ پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے ، وہ مکمل آزاد ہے اور قانون کی بالادستی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے۔