6

انسداد پولیو مہم: دہشت گردی بڑا چیلنج

پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) جمعرات کو خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی جانب سے پولیو ٹیم پر حملہ ہوا، فائرنگ کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار ہاتھ پر گولی لگنے سے جبکہ پولیو ورکر گرنے کی وجہ سے زخمی ہوا۔ واقعے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن ہوا جبکہ پولیو کمپین ایک دن مؤخر ہونے کے بعد پھر سے شروع کی گئی۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر شاہ فہد نے اس حوالے سے بتایا کہ مقامی عمائدین اور لوگوں کے ساتھ جرگہ ہوا جس میں اہل علاقہ کی جانب سے پولیو مہم کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پولیو مہم آخری دم تک جاری رہے گی۔

ڈپٹی کمشنر خیبر شاہ فہد نے کہا: “واقعے کے فوراً بعد ضلعی انتظامیہ کے آفیسر نے علاقے کا دورہ کیا، وہاں کے عمائدین سے ملاقات ہوئی، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ سب نے مل کر اعادہ کیا کہ ہم تخریب کاروں کی جانب سے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرنے والے۔ پولیو کے خلاف جنگ میں ہم مل کر شانہ بشانہ لڑیں گے اور ہر بچے تک پولیو کے قطرے پہنچائیں گے۔”

واضح رہے ضلع خیبر میں 2 لاکھ 31 ہزار پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ تقریباً 950 ویکسی نیٹر پولیو مہم کا ایک اہم حصہ تھے۔ پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کیے گئے اور پولیس فورس ہر ٹیم کے ساتھ گھر گھر جاتی رہی۔

خیبر میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال، افغانستان سے لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد و رفت، لوگوں کا پولیو کے قطروں سے انکار اور دوردراز پہاڑی علاقوں کے علاوہ قلعوں کے اندر موجود کچھ گھروں تک رسائی نہ ہونا بڑے چیلنجز تھے۔ خیبر انتظامیہ کے مطابق ضلع میں 1500 کمپاؤنڈ ہاؤسز ہیں۔

ڈپٹی کمشنر شاہ فہد نے بتایا کہ انہوں نے ایک خصوصی سروے کے تحت کمپاؤنڈ ہاؤسز میں گھروں اور بچوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں اور انہیں ویکسین کریں گے۔

ڈپٹی کمشنر شاہ فہد کا کہنا تھا کہ “مائیکرو سینسز سروے سے ہمیں ان کمپاؤنڈز میں بچوں اور گھروں کی مخصوص تعداد کا پتہ چل گیا ہے، اس سے پہلے پولیو پروگرام میں یہ ایک ہی گھر تصور کیا جاتا تھا جبکہ بچوں کو پولیو کے قطرے نا پہچنے کے خطرات زیادہ ہوتے تھے۔ اس سروے کے بعد ہر بچے تک پولیو کے قطرے یقینی بنائے گئے ہیں۔ اب ان کے بہت اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔”

دوسری جانب پولیو کے خاتمے کے ادارے (ای او سی) نے افغانستان کے ساتھ منسلک ضلع خیبر کو پولیو وائرس کے لیے زیادہ حساس قرار دیا ہے۔ لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ دریں اثناء ضلعی انتظامیہ اور پولیو کے خاتمے کے ادارے نے ٹرانزٹ پوائنٹس یا سڑکوں پر ٹیمیں بنا کر دس سال تک کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر شاہ فہد نے بتایا کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پولیو کے حوالے سے حساس اضلاع کا خصوصی اجلاس بلایا تھا۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع، خصوصی طور پر شمالی وزیریستان اور پولیو کے حوالے سے حساس اضلاع پر توجہ دینے کی ہدایات دی گئیں۔

ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر شاہ فہد بھی وزیراعظم شہباز شریف کی بلائی گئی ٹاسک فورس میٹنگ کا حصہ تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ “طورخم بارڈر پر خصوصی ٹیم کو رکھا گیا ہے جو ہر عمر کے لوگوں کو قطرے پلوائے جاتے ہیں تاکہ یقینی ہو سکے کہ پولیو وائرس وہاں سے منتقل نا ہو جائے۔ اس کے علاوہ ہم نے ضلع کے اندر نقل و حرکت کرنے والے لوگوں کے لیے 10 ٹرانزٹ پوائنٹس بنائے ہیں جہاں دس سال کی عمر تک بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جاتے ہیں۔”

دریں اثنا، خیبر پختونخوا کے ایمرجنسی پولیو کے خاتمے کے مرکز نے ایک ایسے وقت میں شمالی وزیرستان میں پولیو کے مزید دو کیسز کی تصدیق کی ہے جب پاکستان بھر میں انسداد پولیو مہم جاری ہے۔

ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے افسر نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیو سے متاثرہ بچوں کی عمریں 18 ماہ ہیں اور انہیں کبھی بھی انسداد پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے متاثرہ بچوں کو بھی پولیو کے قطرے نہیں پلوائے گئے جبکہ زیادہ تر لوگ انکاری ہیں۔ علاقے میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال مقررہ ہدف تک بچوں کو پولیو کے قطرے پہنچانا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ انہوں نے آئندہ میں بھی پولیو کیسز آنے کی تشویش ظاہر کی ہے۔

پولیو کے ان تازہ ترین کیسز کے ساتھ پاکستان میں رواں سال پولیو کیسز کی تعداد 6 ہو گئی ہے اور یہ سارے چھ کیسز شمالی وزیرستان سے سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ افغانستان اور افریقی ملک مالاوی پولیو سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں ممالک سے 2 کیسز روپورٹ ہوئے ہیں۔

اس سے قبل 25 اور 15 مئی کو پھر 29 اور 22 اپریل کو بھی شمالی وزیریستان سے پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں