17

پشاور میں افغان گلوکاروں و موسیقاروں کی گرفتاری کیخلاف احتجاج

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فن کاروں اور گلوکاروں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد پار پاکستان میں خیبر پختونخوا نقل مکانی کی تھی۔ ان میں سے بعض فن کاروں کو پشاور میں پولیس نے حراست میں لیا تھا جن کو عدالت نے افغان حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جس پر اب پاکستان میں موجود یہ فن کار احتجاج کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور پشاور پریس کلب کے سامنے پیر کو افغانستان کے چار گلوکاروں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ تھانہ تہکال کے اہلکاروں نے جمعے کی شب ان افغان گلوکاروں کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

گرفتار افراد کو بعد ازاں عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ان افراد کے سامنے دو تجاویز رکھی ہیں جن میں ایک تو یہ ہے کہ ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے یا پھر بغیر دستاویزات پاکستان آنے پر ان کو جیل میں سزا کاٹنی ہو گی۔ عدالت رواں ہفتے ہی اس کیس کی دوبارہ سماعت کر سکتی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں اور موسیقاروں کی گرفتار کے بارے میں اتوار کو سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی جس کے بعد ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا سے سخت ردِ عمل سامنے آیا۔

خیبر پختونخوا کے گلوکاروں کی تنظیم کے صدر راشد خان نے پشاور پولیس کے اس اقدام کے خلاف پیر کو احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔راشد خان کی اپیل پر پیر کی صبح سے گلوکار اور موسیقار پشاور پریس کلب کے سامنےجمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

مظاہرین میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ مظاہرین افغان گلوکاروں اور موسیقاروں کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ احتجاج میں پشتو کے معروف گلوکار احمد گل، امجد شہزاد اور معروف طبلہ نواز اسماعیل خان سمیت ادیب اور مصنف حیات روحانی نے بھی شرکت کی۔

خیبرپختونخوا کے گلوکاروں کے تنظیم کے صدر راشد خان نے مظاہرے سے خطاب میں حکومت سے افغانستان سے آئے ہوئے گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ نرمی برتنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نہایت مجبوری کی حالت میں پاکستان آئےہیں کیوں کہ اگست 2021 کے وسط سے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے سب سے پہلے موسیقی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے سب سے پہلے گلوکاروں اداکاروں اور موسیقاروں کو گرفتارکرنا اور ان پر تشدد کرنا شروع کر دیا تھا۔

پشاور پریس کلب کے سامنے لگ بھگ دو گھنٹے احتجاج کرنے کے بعد مظاہرین جلوس کی شکل میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ۔

مطالبات کی حق میں نعرے لگاتے مظاہرین جب خیبر روڈ پر اسمبلی کے سامنے جمع ہوئے تو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی سیکریٹری جنرل اور پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پہنچے۔ انہوں نے پشاور پولیس کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار افغانستان میں حالات بہت خراب ہیں۔ وہاں حکمران طالبان کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا نہیں ہے ۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں راشد خان نے کہا کہ وہ ان گرفتار افغان گلوکاروں اور موسیقاروں کی رہائی کے لیے عدالت میں اپیل بھی دائر کریں گے۔ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رحمٰن اللہ ایڈووکیٹ نے بھی ان افراد کی رہائی کے لیےعدالت میں درخواست دائر کرنے کا عندیہ دیا۔

پشاور پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں شریک افغان نوجوان ذکراللہ وفادار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کے ظلم و ستم سے جان بچانے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان آنے کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے تحفظ کے لیے رابطہ اور اندراج کرایا ہے۔

افغان موسیقار ایاز گل نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے لگ بھگ 550 گلوکار، موسیقار اور اداکار پاکستان نقل مکانی کر چکے ہیں۔

راشد خان نے بتایا کہ 200 زیادہ افراد صرف پشاور ہی میں رہائش پذیر ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان چار افراد کو غیر ملکیوں کے لیے بنائے قانون کے تحت پاکستان میں رہائش کے لیے قانونی دستاویزات نہ ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اور ان کو باقاعدہ عدالت میں بھی پیش کیا گیا ہے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اب ان لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی عدالتی احکامات کے تحت کیا جائے گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں