نجامینا (ڈیلی اردو/اے ایف پی) چاڈ کی حکومت نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک کے شمال میں سونے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدورں کے درمیان ہونے والے تصادم نے ہلاکت خیز شکل اختیار کر لی جس کی لپیٹ میں آ کر کم ازکم 100 کان کن ہلاک ہو گئے۔
#UPDATE Around 100 people have died in clashes between gold miners in northern #Chad, Defence Minister General Daoud Yaya Brahim said on Monday https://t.co/CCQ3gh3daM pic.twitter.com/seyO99ioct
— AFP News Agency (@AFP) May 30, 2022
چاڈ کی حکومت نے بتایا ہے کہ یہ ہلاکت خیز جھڑپیں 23 اور 24 مئی کو ملک کے شمالی حصے میں ہوئیں جہاں سونے کی کانیں واقع ہیں۔
لیبیا کی سرحد کے قریب چاڈ کے ضلع کوری بوگودی میں ایسی بہت سی کانیں ہیں جہاں سے سونا نکالا جاتا ہے۔ یہ کانیں غیر منظم ہیں اور اس علاقے میں لوگ سونے کی تلاش کے لیے جاتے رہتے ہیں، جہاں بعض اوقات سونا تلاش کرنے والوں کے درمیان تنازع بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔
چاڈ کے وزیر دفاع داؤد ابرہیم نے پیر کو بتایا کہ کان کنی کے متعدد مقامات پر لڑائی رات کے وقت شروع ہوئی جس نے شدت اختیار کر لی۔ حقائق معلوم کرنے کے لیے بھیجے جانے والے مشن کی رپورٹ کے مطابق جھڑپوں میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک جب کہ 40 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔
وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ تنازع کیسے شروع ہوا تھا۔
چاڈ کے وزیر مواصلات نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ جھڑپیں لیبیا سے سرحد عبور کر کے آنے والے عربوں اور مشرقی چاڈ سے تعلق رکھنے والے تاما برادری کے درمیان ہوئیں تھیں۔
چاڈ کے حکام نے کوری بوگودی میں کان کنی کی غیر منظم کارروائیاں معطل کر دی ہیں اور لوگوں کو کان کنی کے علاقے سے نکال دیا ہے۔
چاڈ میں دہشت گردی اور باغی گروپوں کے خلاف لڑائیوں کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تشدد پسند مسلح گروہ چاڈ کے سابق مرحوم صدر ادریس ڈیبی کے بیٹے کی زیر قیادت کام کرنے والی عبوری حکومت کو گرانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ تاہم، ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ کان کنی کے علاقے میں ہونے والے حالیہ تشدد میں کسی دہشت گرد گروپ یا جرائم پیشہ گروہوں نے کوئی کردار ادا کیا ہو۔