اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے اور تھانے میں تشدد کی نئی انکوائری کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تھانے کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، یہ لوگ عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے، وہ تواس عدالت بھی نہیں آسکتے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ گرفتاری کا اختیار شہریوں کی حفاظت کے لیے دیا گیا ہے، ایف آئی اے نے توپرچہ نہیں کیا تھا، ایف آئی اے کے کون لوگ تھے جو تھانے گئے؟ پولیس کسٹڈی میں ملزم سے ایف آئی اے کو تفتیش کی اجازت کیسے دی گئی؟ پولیس کسٹڈی میں ملزم پر مبینہ طور پر تشدد بھی کیا گیا، جس ایس ایچ او نے یہ کام کیا اسے تو سروس میں نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹ میں اس متعلق کیا لکھا ہے؟ کیا یہ کورٹ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرے؟ اگر ملزم نے کوئی غلطی کی تھی تو کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے تھی، غلطی کی صورت میں بھی اختیار کا غلط استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
بعد ازاں عدالت نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے اور تھانے میں تشدد کی نئی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک ماہ میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا اور سماعت یکم جولائی تک ملتوی کردی۔