واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی شہری ایلیسن فلوک ایکرین نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے نام نہاد دولت اسلامیہ کی خواتین پر مشتمل ایک بٹالین کو تربیت دی اور اس کی سربراہی کی تھی۔ انھوں نے امریکی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کا بھی اعتراف کیا ہے۔
ایلیسن فلوک ایکرین نے دولت اسلامیہ کی سہولت کاری کے الزام میں اعتراف جرم کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے پُرتشدد واقعات کے لیے 100 خواتین اور لڑکیوں کو تربیت دی تھی۔
عدالت میں جج نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ اعترافِ جرم اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ ان کے بہت سارے بچے ہیں تو وہ عدالت میں پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئیں۔ ان کے بچوں نے بھی ان سے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ انھوں نے اپنے ملک اور خاندان سے بے وفائی کی ہے اور اب وہ ان کے خلاف گواہ بننے پر بھی غور کر رہے ہیں۔
ایلیسن فلوک ایکرین کون ہیں؟
وہ ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معلمہ تھیں جنھوں نے سنہ 2011 میں امریکہ چھوڑ دیا تھا جس کے بعد انھوں نے شام اور لیبیا میں اس مسلح عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کام کیا۔
اس گروہ میں شمولیت کے لیے شام کا سفر کرنے سے قبل 42 برس کی فلوک ایکرین مصر اور ترکی میں بھی رہ چکی تھیں۔
انھیں اس جرم میں زیادہ سے زیادہ 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے تاہم سزا کا فیصلہ بعد میں اکتوبر کے مہنینے میں کیا جائے گا۔
ریاست ورجینیا کی ایک عدالت میں انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے خواتین پر مشتمل گروہ کو ٹریننگ دی۔ مگر ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کبھی کسی بچے کو تنظیم میں بھرتی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
نیوز چینل سی این این کے مطابق اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جان بوجھ کر نوجوان لڑکیوں کو تربیت نہیں دی۔‘ جن خواتین کو انھوں نے تربیت دی ان میں سے چند ان کے خلاف گواہی دیں گی۔
انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کی منصوبہ بندی میں امریکی سرزمین پر حملے شامل تھے جس میں ایک یونیورسٹی اور شاپنگ مال کو ہدف بنایا جانا تھا۔
ایک خاتون نے ان کے خلاف گواہی میں کہا کہ ایلیسن فلوک ایکرین سمجھتی تھیں کہ اگر کسی حملے میں لوگوں کی بڑی تعداد نہ ماری جائے تو اس سے وسائل ضائع ہوں گے۔
دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی مبینہ کمانڈر: ایک ‘آل امریکی گرل’ جسے فطرت سے محبت تھی
ان کا تعلق امریکہ کی وسط مغربی ریاست کنساس سے ہے اور انھیں کبھی بڑی اور گہری آنکھوں والی ’آل امریکی گرل‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان کی دہشتگردی کے الزامات کے مقدمے میں ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
ان پر الزام ہے کہ صرف چند سال قبل وہ ’ام محمد الامریکی‘ کے نام سے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی کمانڈ کر رہی تھیں اور امریکی زمین پر دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
اب ایلیسن امریکی ایف بی آئی کی حراست میں ہیں اور ورجینیا میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں جس میں انھیں 20 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
42 برس کی امریکی شہری ایلیسن فلوک ایکرین کو جب اُن کے بچوں کی جانب سے موصول ہونے والے جواب ’ہمیں اپنی والدہ سے اب کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے‘ کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے بظاہر کافی تحمل سے جواب دیا کہ ’ٹھیک ہے۔‘
ایکرین کا انتہا پسند بننا ایک معمہ ہے
سکول کی ایک سابقہ ٹیچر کس طرح دولت اسلامیہ کی صفوں میں اپنی تمام خواتین بٹالین کی کمان کرنے کے لیے آگے بڑھیں، یہ ایک معمہ ہے۔
سنہ 1990 کی دہائی میں جب ایکرین کمسن تھیں اور سکول میں زیر تعلیم تھیں تو ان کے سائنس کے استاد لیری ملر ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بچی کے دولت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کی خبروں سے بالکل دنگ رہ گئے تھے۔ انھوں نے ایکرین کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ذہین طالبہ تھیں۔
’وہ ایک بہت اچھی طالبہ تھی۔ وہ ذہین تھی اور مزاح کا حس بھی رکھتی تھی۔ ان کے والدین بہت زیادہ سپورٹ کرنے والے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ تقریباً 15 سال پہلے انھیں ایکرین کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی تھی، جس میں انھوں نے بطور استاد ان کی تعریف کی تھی۔
’وہ واقعی بہت اچھا خط تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں سائنس اور فطرت سے کتنی محبت تھی اور اب وہ بھی پڑھانے کے لیے ڈگری حاصل کر رہی تھیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے یہ اشارہ ملتا کہ وہ کسی دوسرے جاندار کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔‘
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا وہ سب کلاس کے فیلڈ ٹرپ پر تھے جب وہ ایک چھپکلی کو احتیاط سے پکڑ کر لائی تھیں تاکہ دوسرے طالب علم اس کا مطالعہ کر سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھ نہیں سکتا کہ فطرت اور لوگوں سے اتنی محبت کرنے والی کوئی طالبہ ایسا کیسے کرے گی۔‘
’ایلیسن جیسی لڑکی، ایک آل امریکی گرل، میں ایسی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے کہ اس کا باہر جا کر قتل کرنے کا دل چاہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسے یقیناً برین واش کیا گیا ہو گا۔‘
بہرحال کئی دہائیوں کے بعد وہ مبینہ طور پر دولت اسلامیہ کے انتہا پسند نظریے کی پیروکار بن گئیں۔
ان کے متعلق ایک گواہ نے وفاقی امریکی استغاثہ کو بتایا کہ ان کے خیالات انتہائی انتہا پسندانہ ہیں اور ایک سے دس کے پیمانے پر وہ ’11 یا 12‘ پر آتی ہیں، حالانکہ 10واں درجہ اپنے آپ میں انتہائی بنیاد پرست ہونے کا اشارہ ہے۔
امریکی حکام اور بی بی سی کی طرف سے جائزہ لیے گئے عوامی ریکارڈز کے مطابق ایکرین نے 2000 کی دہائی کے آخر میں مشرق وسطیٰ میں اپنے اس وقت کے شوہر اور بچوں کے ساتھ وقت گزارا اور ساتھ ہی وہ کنساس کا دورہ بھی کرتی رہیں۔
انھوں نے 2008-10 کے دوران ایک بلاگ پر اس کی تفصیلات درج کیں جو کہ ایک عام زندگی تھی۔
امریکہ سے شام کا سفر
ایک بلاگ کے مطابق سنہ 2008 میں ایلیسن امریکی ریاست کنساس میں بطور استاد کام کر رہی تھیں۔
امریکی حکام کا الزام ہے کہ سنہ 2011 میں ایلیسن لیبیا گئیں جہاں سے سنہ 2012 کے دوران وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انسانی سمگلرز کی مدد سے شام پہنچ گئیں۔
ایلیسن کے شوہر کے بارے میں الزام ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے بعد سنائپر (ماہر نشانہ باز) بن گئے تھے اور بعد میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔
اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایلیسن نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک بنگلہ دیشی رُکن سے شادی کر لی تھی جو ڈرون حملوں کا ماہر مانا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے شوہر بھی سنہ 2016 یا سنہ 2017 کے اوائل میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ایلیسن نے تیسری بار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک ایسے سینیئر کمانڈر سے شادی کی جن کو شام میں اس تنظیم کے دارالحکومت رقہ کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
سنہ 2017 میں ہی رقہ شہر پر داعش مخالف اتحاد نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا۔
خواتین بٹالین کی سربراہ جو خودکش حملوں، کلاشنکوف چلانے کی تربیت دیتی تھیں
امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایلیسن کو سنہ 2017 میں شام میں گرفتار کیا گیا جس کے بعد انھیں ایف بی آئی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
اس بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایلیسن کئی اور ناموں سے بھی جانی جاتی تھیں جن میں ام محمد الامریکی، ام محمد اور ام جبرائیل شامل ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق ایلیسن نے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے سنہ 2014 سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور وہ امریکہ کے کالج کیمپس پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی کرتی رہیں۔
اس بیان کے مطابق سنہ 2016 میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے رقہ شہر کے ولی نے ’خطیبہ نصیبہ‘ کے نام سے خواتین کی بٹالین قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایلیسن جلد ہی اس کی سربراہ تعینات کر دی گئی تھیں۔ اس بٹالین کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کی سربراہ ایک امریکی خاتون ہیں۔
بطور سربراہ ایلیسن نے خواتین اور بچوں کو کلاشنکوف چلانا سکھائی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں ہینڈ گرینیڈ چلانے اور خودکش حملوں کی تربیت بھی دی۔ امریکی حکام کے مطابق ایسے عینی شاہدین موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انھوں نے ایلیسن کو خود یہ کلاسز لیتے ہوئے دیکھا تھا۔
’کاش یہ حملہ امریکہ میں ہوا ہوتا‘
امریکی حکام کے مطابق ایلیسن نے مبینہ طور پر ایک عینی شاہد جو اس مقدمے کے گواہ ہیں کو بتایا کہ وہ امریکہ میں دہشت گرد حملوں کی خواہش مند ہیں۔
اسی گواہ کے مطابق ایلیسن کا منصوبہ تھا کہ وہ بارود سے بھری گاڑی کسی شاپنگ مال کی زیر زمین پارکنگ میں کھڑی کریں گی اور فون کی مدد سے دھماکہ کر دیں گی۔
حکام کے مطابق ایلیسن کے نزدیک جب تک کسی بھی ایسے حملے میں بہت زیادہ افراد کی ہلاکت نہ ہو تب تک اس کی تیاری کے لیے وسائل کا استعمال وقت کا ضیاع ہو گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک گواہ کے مطابق جب بھی ایلیسن کو بیرون ملک کسی دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتی تو وہ کہتیں کہ ’کاش یہ حملہ امریکہ میں ہوا ہوتا۔‘
جنگ کے میدان سے عدالت کے کمرے تک
ایلیسن کو امریکہ میں ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا ہے جس میں انھیں 20 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
پیر کو استغاثہ کے وکلا نے ایلیسن کو آگاہ کیا کہ ان کے خاندان نے درخواست کی ہے کہ ایلیسن کو اُن سے (اہلخانہ) بات کرنے کی کوششوں سے روکا جائے۔
جب ایلیسن کو یہ اطلاع ملی تو انھوں نے کافی تحمل کا مظاہرہ کیا۔
اُن کے والدین اور دو بچے جو کنساس ہی میں رہتے ہیں، نے کہہ دیا ہے کہ وہ ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ فیڈیرل پراسیکیوٹر راج پاریخ سے یہ سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میں سمجھ گئی۔‘
سر پر کالا سکارف اوڑھے ہوئے ایلیسن نے جواب دیا کہ وہ خاندان کی خواہش کا احترام کریں گی اور ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گی۔
اس دن کی یہ واحد بُری خبر نہیں تھی۔ اُن کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ان پر عائد الزامات ثابت ہو گئے تو انھیں 20 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
عدالت میں پیشی کے بعد سیکیورٹی اہلکار ایلیسن کو ساتھ لے گئے۔