القاعدہ کی خودکش حملوں کی دھمکی کے بعد بھارت میں سیکیورٹی سخت

نئی دہلی (ڈیلی اردو) حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک عہدیدار کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصروں کے ردعمل میں عسکریت پسند گروپ القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) سے منسوب دھمکی آمیز خط منظر عام پر آنے کے بعد بھارت نے سیکورٹی سخت کر دی ہے۔

غیر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق کئی بھارتی میڈیا گروپوں نے القاعدہ برصغیر سے منسوب 6 جون کو لکھے گئے ایک خط کی اطلاع دی جس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حرمت کے دفاع کے لیے بھارتی ریاستوں میں خودکش بم حملے کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

وفاقی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں القاعدہ برصغیر کی جانب سے جاری کردہ دھمکیوں کی صداقت کی جانچ کر رہی ہیں۔

نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ہم نے پولیس کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ عوامی اجتماعات یا احتجاج کی اجازت نہ دیں کیونکہ انہیں عسکریت پسند گروپ کی جانب سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

سیکیورٹی کا مذکورہ خطرہ بی جے پی کی ایک ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں تبصرے کے بعد سامنے آیا۔

نوپور شرما کے ریمارکس نے بھارت کے مسلمانوں میں شدید اشتعال پیدا کردیا اور مسلم ممالک نے بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کے لیے سفارتی سطح پر احتجاج شروع کردیا۔

نوپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے جبکہ ایک اور ترجمان نوین کمار جندال کو سوشل میڈیا پر اسلام مخالف تبصروں پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

پولیس نے اتر پردیش میں بی جے پی کے ایک نوجوان رہنما کو سوشل میڈیا پر مسلم مخالف تبصرے پوسٹ کرنے پر حراست میں لے لیا، 50 دیگر افراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا جنہوں نے نوپور شرما کے ریمارکس پر گزشتہ ہفتے بھارت کے کچھ حصوں میں مظاہروں میں حصہ لیا۔

بھارت کی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ توہین آمیز ٹوئٹس اور تبصرے کسی بھی طرح سے حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔

بی جے پی کے کئی سینئر ارکان کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ عوامی پلیٹ فارم پر مذہب کے بارے میں بات کرتے وقت انتہائی محتاط رہیں۔

تاہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران اور افغانستان کے رہنماؤں کی جانب سے بھارت سے معافی مانگنے اور سفارتکاروں کو طلب کرکے توہین آمیز تبصروں کے خلاف احتجاج کیے جانے کے بعد ملک میں عوامی ردعمل میں تازہ اضافہ ہوا۔

57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ توہین بھارت میں اسلام کے خلاف نفرت کی بڑھتی ہوئی شدید فضا اور مسلمانوں کو منظم طریقے سے ہراساں کیے جانے کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

بھارتی مسلمانوں نے بی جے پی کے دور حکومت میں عبادت سے لے کر حجاب کی آزادی تک ہر معاملے میں زیادہ دباؤ محسوس کیا ہے۔

تازہ تنازع نریند مودی کے لیے ایک سفارتی چیلنج بن گیا ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں توانائی سے مالا مال مسلم ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کیے ہیں۔

بھارت میں اسلامسٹ رائٹس گروپ کے ارکان نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب بااثر غیر ملکی رہنماؤں نے اقلیتی برادری کی تذلیل کے خلاف بات کی ہے۔

ممبئی میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے ایک رضاکارانہ گروپ کے رہنما علی اصغر محمد نے کہا کہ ‘بالاآخر ہماری آوازیں سنی گئیں، صرف عالمی رہنما ہی مودی حکومت اور ان کی پارٹی کو مسلمانوں کے ساتھ اپنا رویہ بدلنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں’۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں