ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/روئٹرز) مبینہ ‘ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ’ کی ایک عدالت نے جنگ میں یوکرین کی مدد کرنے کے الزام میں دو برطانوی اور ایک مراکشی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔ برطانیہ نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
روسی خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کے مطابق روس نواز یوکرین کے ڈونیٹسک علاقے میں علیحدگی پسندوں کی ایک عدالت نے یوکرین میں روسی فوج کے خلاف جنگ لڑنے کے دوران گرفتار کیے گئے دو برطانوی شہری شان پینر اور آئیڈن اسلین اور ایک مراکشی شہری براہیم سعدون کو موت کی سزا سنائی ہے۔
ریانووستی کے مطابق ان قیدیوں کو گولی مار دی جائے گی تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس سزا پر کب اور کہاں عمل درآمد کیا جائے گا۔
حالانکہ جس عدالت نے یہ سزا سنائی ہے اسے بین الاقوامی برادری تسلیم نہیں کرتی۔ یہ عدالت ڈونیٹسک جمہوریہ میں ہے جس نے روس کی حمایت کے بعد خود کو یوکرین سے الگ ایک آزاد ملک کے طور پر اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ روس کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
تینوں غیر ملکی شہریوں پر پیشہ ور قاتل ہونے، اقتدار کے حصول کے لیے تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے تربیت حاصل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ روسی میڈیا کے مطابق ان تینوں نے اپنے “جرم کا اعتراف” کرلیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق یہ تینوں افراد عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
I utterly condemn the sentencing of Aiden Aslin and Shaun Pinner held by Russian proxies in eastern Ukraine.
They are prisoners of war. This is a sham judgment with absolutely no legitimacy.
My thoughts are with the families. We continue to do everything we can to support them.
— Liz Truss (@trussliz) June 9, 2022
برطانیہ نے فیصلے پر نکتہ چینی کی
برطانیہ اور یوکرین نے ڈونیٹسک عدالت کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے جنگی مجرموں کے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
برطانیہ نے کہا کہ وہ اپنے دونوں شہریوں کو موت کی سزا سنائے جانے پر کافی فکر مند ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے کہا کہ دونوں کی رہائی کے لیے یوکرین کے ساتھ مل کر کوششیں جاری ہیں۔
ایک برطانوی ترجمان نے کہا کہ جنگی مجرموں کا استعمال سیاسی فائدے کے لیے نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے جنیوا کنونشن کا حوالہ دیا جس کے تحت جنگی مجرموں کو معافی کی گنجائش موجود ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے بھی عدالت کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے ایک “فرضی فیصلہ” قرار دیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا،” میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہوں۔ انہیں مدد کرنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔”
مبصرین یہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ برطانیہ اپنے ان دونوں شہریوں کے بدلے میں کچھ روسیوں کو رہا کرسکتا ہے۔
یہ لوگ زیلنسکی کی اپیل پر آئے تھے
برطانوی پارلیمان میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹریزن ہاٹ نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن پر “ایک طرح سے انتقامی کارروائی کرنے اور لوگوں کا اغوا کرنے”کا الزام لگایا۔ انہوں نے ڈونیٹسک کی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کہا،” یہ کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ کوئی عدالت نہیں ہے۔ وہ جج نہیں، عام لوگ ہیں جو لباس پہن کر جج ہونے کا ڈھونگ کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی بے رحم کارروائی ہے جو تین بے گناہ لوگوں کے خلاف کی گئی ہے۔ ”
روس کی جانب سے یوکرین پر 24 فروری کو فوجی حملے کے بعد یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے غیرملکیوں سے اپنے یہاں آکر لڑنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد 16 ہزار رضاکار وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے کچھ جنگ میں براہ راست حصہ لینے اور کچھ انسانی امداد کے لیے کام کرنے گئے تھے۔