اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی بجٹ کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال 23-2022 کے مطابق حکومت نے دفاعی خدمات کے لیے 15 کھرب 23 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو رواں مالی سال 22-2021 کے لیے مقرر کردہ بجٹ سے 11.16فیصد زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اضافہ مقرر کردہ جی ڈی پی کے 1.94 فیصد اور حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ تمام اخراجات کے 16 فیصد کے قریب ہے۔
یہ اضافہ 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کے حساب سے تقریباً برابر ہے۔
دفاعی ذرائع نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ آئندہ سال کے لیے دفاعی اخراجات میں 6 فیصد یعنی 14 کھرب 50 ارب روپے کا ہو گیا، اسی طرح کے الفاظ دفاعی بجٹ کے لیے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی بجٹ کی تقریر میں بھی تھے۔
اس وقت جب لوگ مالی بحران سے گزر رہے ہیں، دفاعی اخراجات میں اضافے پر حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔
اعلان کردہ دفاعی بجٹ ترقیاتی شعبے میں 11 فیصد، صحت میں 31 فیصد، تعلیم میں 1.5 فیصد اور ہاؤسنگ میں 77 فیصد کٹوتی کے برعکس ہے۔
خیال رہے کہ یہ اعدادو شمار دفاعی اخراجات کی واضح تصویر پیش نہیں کرتے، مثلاً آئندہ مالی سال میں حکومت ریٹائرڈ ملٹری اہلکاروں کو بطور پنشن 39 کروڑ 50 لاکھ کی اضافی رقم ادا کرے گی جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 36 کروڑ سے زیادہ ہے۔
دفاعی شعبہ کے اور بھی بہت سے اخراجات ہیں جنہیں مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا جس میں فوجی سازو سامان کی درآمدات اور جوہری پروگرام کو چلانے کے اخراجات شامل ہیں۔
لہٰذا متعدد افراد کا ماننا ہے کہ حقیقی اخراجات قومی اسمبلی میں پیش کردہ اخراجات سے خاصے زیادہ ہیں۔
بجٹ کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال میں دفاع کے مقرر کردہ بجٹ پر نظر ثانی کی گئی تھی ابتدائی طور پر دفاع کے لیے 13 کھرب 70 ارب کے بجٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم، رواں مالی سال کے اختتام پر پہنچنے پر مسلح افواج کی جانب سے مجموعی طور پر 110 ارب روپے خرچ کیے گئے جو ابتدائی بجٹ سے 8 فیصد زیادہ تھا، 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کا دفاعی بجٹ نظر ثانی کے بعداب ایک کھرب 48 ارب پر پہنچ چکا ہے۔
دفاعی بجٹ کی گہرائی میں جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ بری فوج ہمیشہ بڑا حصہ حاصل کرتی ہے جو (47.6 فیصد یا 7 کھرب 24 ارب 30 کروڑ روپے ) ہے، جس کے پاکستان فضائیہ (21.3 فیصد یا 3 کھرب 23 ارب 70 کروڑ، دفاعی اسٹیبلشمنٹ انٹر سروسز آرگنائزیشن (20.33 فیصد یا 3 کھرب 96 کروڑ) اور پاک بحریہ (10.58 فیصد یا ایک کھرب 65 ارب 30 کروڑ ) کا حصہ لے رہی ہے۔
رواں مالی سال میں تمام شعبوں نے یکساں 11.16 فیصد اضافی حصہ حاصل کیا تھا۔
مقرر کردہ بجٹ کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اضافہ ملازمین سے متعلق اخراجات میں ہوا جس میں حاضر سروسز ملازمین کی تنخواہیں اور الاؤنسز شامل ہیں جس میں 17.8 فیصد یعنی 5 کھرب 67 ارب 4 کروڑ اضافہ ہوا جس نے بعد میں آپریٹنگ اخراجات میں 12.77 فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں ٹرانسپورٹ، راشن، تربیت اور علاج میں خرچ ہونے والی رقم شامل ہے۔
آپریٹنگ اخراجات میں 3 کھرب 68 ارب 90 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
دفاعی املاک اور سول ورکس میں بالترتیب 5 فیصد اور 3 فیصد اضافہ ہوا، سول ورکس فوجی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور مرمت جبکہ دفاعی املاک اسلحے اور بارود کی مقامی سطح پر خریداری اور کچھ برآمدات سے متعلق اخراجات ہیں۔
تجویز کے مطابق دفاع املاک پر 4 کھرب 11 ارب جبکہ سول ورکس پر ایک کھرب 75 ارب 40 کروڑ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔
بظاہر یہ اضافہ بڑھتی ہوئی ادائیگیوں، مہنگائی، تیل کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلح افواج اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ ملک کو درپیش مالی مشکلات کے باوجود فوجی صلاحیتیں غیر متاثر رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے عزم کیا ہے کہ دستیاب وسائل کے ساتھ قومی دفاع اور سلامتی کے لیے ہمیشہ حاضر ہیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے بجٹ کے لیے مسلح افواج نے کسی اضافی رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج اخراجات کو کم کرنے سے متعلق اپنے منصوبے پر کام کر چکی ہیں، جس کے ذریعے انہوں یوٹیلٹی بلز، فیول، اور ٹریننگ کے اخراجات میں کمی کی ہے، جمعہ سے ایمرجنسی کے سوا کہیں بھی سرکاری گاڑیوں کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں ڈیفنس سے متعلق کوئی منصوبے شامل نہیں ہیں اور جاری منصوبوں کے لیے 2 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔