تل ابیب (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کے بعد مغربی کنارے کے علاقے مسافر یطا میں 1200 کے قریب فلسطینی خاندانوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ہے۔
عدالت کے حالیہ فیصلے سے 1967 کی مشرق وسطیٰ جنگ میں اسرائیل کے اس علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں سے یہ سب سے بڑی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔
اس علاقے کے رہائشی نقل مکانی کرنے سے انکار کر رہے ہی۔یہاں کے مکین پر امید ہیں کہ ان کی جدوجہد اور بین الاقوامی دباؤ اسرائیل کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔
الفاخیت کے علاقے کی رہائشی ایوب ابو صباح نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ ان سے زمین لے کر یہاں آبادکاری کرے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔ اس علاقے میں رہنے والے فلسطینی کاشت کاری اور مویشی چرانے کا کام کرتے ہیں۔
اسرائیل نے 1980 کی دہائی میں اس علاقے کو ایک فوجی علاقہ قرار دیتے ہوئے یہاں فائرنگ زون قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اسرائیلی حکومت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تین ہزار ایکڑ پر محیط یہ علاقہ فوجی ٹریننگ کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔
حکومت نے یہاں کے لوگوں کو ممکنہ خانہ بدوش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کے رہنے والے زیادہ تر باشندے موسم کے لحاظ سے اپنی رہائش بدلتے رہتے ہیں۔
ایوب ابو صباح نے کہا کہ یہ برس بہت تکلیف دہ رہا ہے۔
جنوبی الخلیل کی پہاڑیوں کے مکین عمومی طور پر غاروں میں رہتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں اس علاقے میں چھوٹی موٹی تعمیرات بھی ہوتی رہی ہیں۔
ایوب ابو صباح کے مطابق اسرائیلی فوج یہاں پر تعمیرات کو مسلسل گراتی رہی ہے لیکن اب ان کے پاس عدالتی فیصلہ موجود ہے۔
انہوں نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو یہاں سے نکالنے کا کام جلد ہی شروع ہو سکتا ہے۔
کچھ ہی فاصلے پر موجود فوجیوں کی آمد کے بعد ان کے خاندان کا سارا ساز و سامان ملبے کے ڈھیر کی نذر ہو گیا کیوں کہ اسرائیل کی فوج نے یہاں موجود تعمیرات کو گرانا شروع کر دیا۔
عدالت کے اس فیصلے کے لیے 1980 کی دہائی کے اس علاقے کے ہوائی سروے اور ایک کتاب کو استعمال کیا گیا جس کو فریقین نے بطور ثبوت پیش کیا تھا۔
اسرائیلی محقق اور مصنف یاکوو ہواکووک کی نے یہ کتاب ’Life in the Caves of Mount Hebron‘ یعنی ’الخلیل کے پہاڑی غاروں میں زندگی‘ تحریر کی تھی۔
انہوں نے مسافر یطا میں کاشت کاروں اور چرواہوں کے خاندانوں کے ساتھ تین برس گزارے تھے۔
ہواکووک نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی درخواست کے باوجود عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا البتہ انہوں نے اپنی کتاب کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے علاقے کے رہائشیوں کی جانب سے ایک ماہرانہ رائے دینے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اسرائیلی وزارت دفاع نے، جہاں وہ اس وقت کام کر رہے تھے، ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔
اسرائیل کی عدالت کے اس فیصلے کی اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے مذمت کی ہے۔
اسرائیل سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان افراد کو بے گھر کرنے کا اقدام کرے۔