جنیوا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/روئٹرز) اقوام متحدہ کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ کے ساحلی علاقوں سے یورپ کی طرف آنے والے مہاجرین میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے جمعرات کے روز بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران دنیا بھر میں 10 کروڑ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ادارے نے اپنی گلوبل ٹرینڈز رپورٹ میں کہا ہے کہ سن 1951 میں مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے قیام کے بعد سے پہلی بار یوکرین میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا بحران سامنے آیا ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے ساتھ ساتھ افغانستان کا بحران بھی ان اہم واقعات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ سے تقریباً دس کروڑ افراد کو مجبوری میں بے گھر ہونا پڑا۔ اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران ہر برس اس رجحان میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرانڈی نے کہا کہ پناہ کے متلاشی افراد میں اضافے کا یہ رجحان اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک عالمی برادری تنازعات کو حل کرنے اور حل تلاش کرنے کی سمت میں اہم اقدامات نہیں کرتی۔
خوراک کے بحران سے مسئلہ مزید بڑھے گا
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق نے یوکرین کی جنگ نے غذائی تحفظ کا بحران پیدا کر دیا ہے، جو غریب ممالک میں اور زیادہ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرے گا۔
فلیپو گرانڈی نے اس ہفتے کے اوائل میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ، جنگ، انسانی حقوق اور آب و ہوا جیسے جن مسائل کا میں نے ذکر کیا، اگر آپ کے پاس ان تمام چیزوں کے ساتھ ہی، خوراک کا بحران بھی ہے، تو یہ ان رجحانات کو مزید تیز تر کر دے گا، جن کا میں نے اس رپورٹ میں ذکر کیا ہے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت تمام وسائل یوکرین پر مرکوز کیے جا رہے ہیں، جبکہ دنیا بھر میں دیگر پروگراموں کے لیے فنڈز بہت کم ہیں۔ انہوں نے ایتھوپیا میں تنازعات اور قرن افریقہ میں خشک سالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”یوکرین کی وجہ سے ہمیں دوسرے بحرانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔”
پناہ گزینوں سے بھی تفریق
گرانڈی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہاجرین کے بحران کے حوالے سے یورپی یونین کا رد عمل ”غیر مساوی” رہا ہے۔ ان کے مطابق یوکرین کے پناہ گزینوں کا جس انداز اور سخاوت کے ساتھ استقبال ہوا ہے وہ دوسرے ممالک کے پناہ گزینوں کے ساتھ نہیں ہوا اور پناہ کے متلاشی ایسے تمام افراد کے لیے اسی طرح سے رقم فراہم کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ”یقینی طور پر یہ ایک اہم نکتہ ثابت کرتا ہے: امیر ممالک کے ساحلوں یا سرحدوں پر غریب ممالک کے پناہ گزینوں کی آمد پر جو رد عمل ہوتا ہے اور جس طرح اس پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ کوئی غیر منظم بات نہیں ہے۔”
ساحلی علاقے سے مہاجرت
گرانڈی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے، موسمیاتی بحرانوں اور تشدد سے بچنے کے لیے افریقہ کے ساحلی علاقوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ یہ بے گھر لوگ بحران سے بچنے کے لیے شمالی یورپ کا رخ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خطہ پہلے ہی برسوں کی خشک سالی اور سیلاب کی مار جھیلتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے آمدن میں عدم مساوات، صحت کی خراب دیکھ بھال اور خراب حکمرانی کا سامنا رہا ہے۔ اب غذائی تحفظ کے بڑھتے ہوئے بحران نے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ”میں ساحل کے حوالے سے بہت پریشان ہوں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ ہم اس خطے کے بارے میں کافی بات بھی کر رہے ہیں، جو یورپ کے بہت قریب ہے۔ میرے خیال سے اس بارے میں یورپ کو زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔”
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین، وینزویلا، میانمار، شام اور اس کے علاوہ دیگر بحرانوں کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔