لندن حکومت نے جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کی منظوری دیدی

لندن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی) برطانوی وزیر داخلہ نے وکی لیکس کے بانی کی امریکہ حوالگی کے حکم پر دستخط کر دیے ہیں۔ اسانج اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ ان کے وکلاء کو خدشہ ہے کہ امریکہ میں انہیں ڈیڑھ سو سال سے زائد کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

برطانیہ سے ملک بدری اور امریکہ حوالگی کی صورت میں اسانج کو جاسوسی کے الزامات میں اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

برطانوی وزیر داخلہ پریتی پاٹیل نے جمعہ 17 جون کے روز اسانج کی امریکہ حوالگی کے فیصلے پر دستخط کر دیے۔ یہ حکومتی اقدام ایک برطانوی عدالت کے اپریل میں دیے گئے اس فیصلے کے بعد کیا گیا ہے، جس میں وکی لیکس کے بانی کو ملک بدر کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ”برطانوی عدالتوں نے اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کے عمل کو جابرانہ یا غیر منصفانہ نہیں پایا۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتوں نے اسانج کی امریکہ حوالگی کو انسانی حقوق، مقدمے کی شفاف کارروائی اور اظہار رائے کی آزادی سے بھی متصادم نہ پایا۔ اس کے برعکس امریکہ میں ان کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے گا اور ان کی صحت کا بھی خیال رکھا جائے گا۔

برطانوی حکومت کا یہ فیصلہ اسانج کی اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف برسوں سے جاری جد و جہد میں ایک کلیدی لمحہ تو ہے تاہم ضروری نہیں کہ یہ اسانج کی کہانی کا اختتام بھی ثابت ہو۔ وکی لیکس کے بانی کے پاس لندن حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے چودہ دن کا وقت ہے۔

ایک برطانوی جج نے اپریل میں اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اس بارے میں حمتی فیصلہ حکومتی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ یہ فیصلہ اسانج کی ملک بدری سے متعلق قانونی جنگ برطانوی سپریم کورٹ تک پہنچ جانے کے بعد آیا تھا۔

امریکہ نے برطانوی حکام سے اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ وکی لیکس کی جانب سے ایک دہائی قبل امریکہ کی خفیہ معلومات کو افشا کرنے پر جاسوسی کے 17 اور کمپیوٹر کے غلط استعمال کے ایک الزام میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر سکیں۔

امریکی ماہرین استغاثہ کا کہنا ہے کہ جولیان اسانج نے غیر قانونی طور پر سفارتی خط و کتابت اور خفیہ فائلیں چوری کرنے میں امریکی فوج میں خفیہ معلومات کی ایک تجزیہ کار چیلسی میننگ کی مدد کی تھی۔ یہ معلومات بعد میں وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی تھیں۔ امریکی استغاثہ کے بقول اس عمل سے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا تھا۔ صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے برطانوی حکومت سے اسانج کی حوالگی کے لیےامریکی درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پچاس سالہ اسانج کے حامیوں اور وکلاء کا موقف ہے کہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے غلط کاموں کو بے نقاب کرنے والی دستاویزات شائع کرنے پر امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں دی گئی آزادی اظہار کے تحت تحفظ کے حقدار ہیں۔ ان حامیوں اور وکلاء کا ماننا ہے کہ اسانج کے خلاف مقدمے کے محرکات سیاسی ہیں۔

اسانج کے وکلاء کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ میں 175 سال قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق اگر انہیں سزا سنائی گئی، تو یہ خاصی کم ہو گی۔ اسانج ایک اور مقدمے میں ضمانت کے دوران بھاگنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد سے لندن ہی میں 2019 سے بیل مارش کی ہائی سکیورٹی جیل میں قید ہیں۔

اس سے قبل اسانج نے اپنے خلاف ریپ اور جنسی حملے کے الزامات میں اپنی سویڈن حوالگی سے بچنے کے لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں سات سال تک پناہ لیے رکھی تھی۔ پھر قانونی طور پر مقررہ سے زائد وقت گزر جانے کے بعد سویڈن نے نومبر 2019ء میں اسانج کے خلاف جنسی جرائم کے یہ الزامات ختم کر دیے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں