واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکہ کی حکومت منگل کے روز سے ایک ایسے نئے قانون کو نافذ کر رہی ہے جس کا مقصد چین میں ایغور اور دیگر نسلی گروہوں کی جبری مشقت سے تیار کردہ درآمدات روکنا ہے۔
ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ (UFLPA) امریکی حکام کو چین کے سنکیانگ علاقے میں جبری مشقت کے زور پر تیار کردہ مصنوعات کی درآمد روکنے کے مزید اختیارات دیتا ہے۔ ایکٹ کے مطابق جب تک درآمد کنندہ گان واضح طور پر یہ ثابت نہ کر دیں کہ سامان جبری مشقت کےزور پر تیار نہیں کیا گیا، ان کی درآمدات کو آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
امریکی کانگریس نے گزشتہ سال دسمبر میں ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ منظور کیا تھا ۔ امریکہ اور دیگر ملکوں نے چینیوں پر سنکیانگ کے علاقے میں نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ2017ء سے، چینی حکام نے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں ایغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ ایغور کو خود ساختہ دوبارہ تعلیم کے لیے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں جبری مشقت اور جبری نس بندی شامل ہیں۔
چین مسلسل جبری مشقت کے کسی بھی الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ اقدامات بنیاد پرستی کے خاتمے اور انسداد دہشت گردی کے لیے اٹھا رہا ہے ۔گزشتہ ہفتے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس دعوے کو “چین مخالف قوتوں کی جانب سے من گھڑت الزام” قرار دیا تھا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ نیا امریکی قانون ایک بہانےکے سوا اور کچھ نہیں، جسے سنکیانگ کو غیر مستحکم کرنے اور چین کی ترقی کو روکنے کی ایک سیاسی چال قرار دیا ہے۔
تیرہ جون کو، امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی نے درآمد کنندگان کو قانون کے نفاذ کے بارے میں ہدایات جاری کر دی تھیں، جن میں کہا گیا ہے کہ درآمد کنندگان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خام مال کی سطح سے لے کر اپنی سپلائی چین کی جانچ پڑتال کریں آیا ان کی مصنوعات مکمل طور پر یا جزوی طور پر سنکیانگ میں بنائی گئی ہیں یا جبری مشقت سے منسلک اداروں کے ذریعے تیار کی گئی ہیں۔
ان ہدایات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چین سے باہر بھی مصنوعات درآمد کرنے والی کمپنیوں کو اپنی مکمل سپلائی چین کی چھان بین کرنی چاہیے۔ ایک مستند تحقیق میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں درآمد کی جانے والی مصنوعات کی ایک بڑی تعداد چین اور سنکیانگ میں جبری مشقت سے جڑی ہے ، جیسا کہ کپڑوں کے بڑے برانڈز میں کپاس اور سولر پینلز میں پولی سیلیکون۔
ہیومن رائٹس واچ میں کارپوریٹ جوابدہی کے سینئر محقق اور وکیل جم ورمنگٹن کا کہنا ہے کہ نئے امریکی قانون کا مطلب ہے کہ چین اور خاص طور پر سنکیانگ میں جبری مشقت سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے لیے اب یہ معمول کا کاروبار نہیں ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے بقول، ”کمپنیوں کو فوری طور پر سنکیانگ سے کسی بھی سپلائی چین کے لنکس کی نشاندہی کرتے ہوئے خطے سے باہر نکل جانا چاہیے یا امریکی قانون کی خلاف ورزی کرنے اور ان کے سامان کو امریکی سرحد پر روکے جانے کے خطر ے کا علم ہونا چاہیے۔”
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے گذشتہ ہفتے اپنی ایک حکمت عملی جاری کی جس کا مقصد امریکہ میں ان اشیا کی درآمد کو روکنا ہے جو چین کے صوبہ سنکیانگ میں جبری مشقت کے ذریعے تیار کی گئی ہیں۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کےوزیر نے کہا کہ “ہمارا محکمہ سنکیانگ کے خود مختار علاقے سمیت دنیا بھر میں جبری مشقت کے گھناؤنے عمل کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے جہاں عوامی جمہوریہ چین نظامی طور پر ایغور اور دیگر مسلم اکثریتی برادریوں پر ظلم اور استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ” ہمیں ان غیر انسانی اور استحصالی طریقوں کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جائز طریقے سے تیار کردہ سامان ہماری بندرگاہوں پر داخل ہو سکے “۔
ایغور جبری مشقت کی روک تھام کے ایکٹ پر دسمبر میں امریکی صدر بائیڈن نے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دو طرفہ حمایت حاصل کرنے کے بعد دستخط کیے تھے۔