ایران نے جنوری سے مارچ کے درمیان 105 افراد کو پھانسی دی، اقوام متحدہ

جنیوا + تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی) اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران میں جنوری سے مارچ کے درمیان کم از کم 105 لوگوں کو پھانسی دی گئی ان میں بہت سے افراد کا تعلق اقلیتی گروپوں سے تھا۔ جبکہ سن 2021 میں مجموعی طورپر 300 سے زائد افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے منگل کے روز جنیوا میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں ایران میں پھانسی کی سزا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی نائب سربراہ ندا الناشف نے انٹونیو گوٹریش کی جانب سے یہ رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ سن 2022 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ایران میں 100 سے زائد افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ انہوں نے کہا،”سن 2020 میں جہاں 260 افراد کو پھانسی دی گئی تھی وہیں سن 2021 میں کم از کم 310 افراد کو موت کی سزا دی گئی، ان میں کم از کم 14 خواتین تھیں۔ اور یہ رحجان رواں برس بھی جاری ہے۔”

ناشف نے بتایا کہ یکم جنوری سے 20 مارچ کے درمیان کم از کم 105 افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا جن میں سے بہت سے لوگوں کا تعلق اقلیتی گروپوں سے تھا۔

ناشف کا کہنا تھا کہ مارچ میں 52 افراد کو منشیات سے متعلق الزامات میں پھانسی کی سزا دی گئی۔

انہوں نے نو عمر قصورواروں کو بھی پھانسی دیے جانے کا سلسلہ جاری رہنے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔

طاقت کا بے جا استعمال

ناشف نے کہا کہ اگست 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان کم از کم دو نو عمر لڑکوں کو ان کے مبینہ جرائم کے لیے پھانسی پر لٹکا دیا گیا جبکہ 85سے زائد نو عمر سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔

انہوں نے بتایا،”فروری 2022 میں، ایک مثبت پیش رفت میں، سپریم کورٹ نے ایک بچے کی موت کی سزا منسوخ کردی تھی، جسے 18 برس قبل موت کی سزا سنائی گئی تھی۔”

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کی نائب سربراہ نے ایران میں انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی۔اس حوالے سے انہوں نے بالخصوص گزشتہ ایک برس سے زیادہ عرصے کے دوران سماجی، سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کے سلسلے میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ذکر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گوٹریش نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بہت معمولی جرائم بشمول منشیات وغیر کے لیے بھی پھانسی کی سزاوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا،”موت کی سزائیں ایسے الزامات کی بنیاد پر بھی دی جارہی ہیں جو’ انتہائی سنگین جرائم’ کے زمرے میں نہیں آتے۔ اور ملزمین کوانصاف حاصل کرنے کا پورا موقع نہیں دیا جاتا ہے۔ ”

ناشف نے بتایا، “مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے حکام نے طاقت کا انتہائی بے جا استعمال کیا۔ اپریل اور مئی 2022 میں مظاہرہ کرنے والے کم از کم 55 افراد کو قومی سلامتی کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں ٹیچر، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنان، فنکار اور دانشور شامل ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ نومبر 2019 میں ملک گیر مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے آج تک کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا نہیں گیا ہے۔

ناشف نے کہا کہ قید میں جتنی بڑی تعداد میں اموات ہورہی ہیں وہ بھی انتہائی تشویش کا موجب ہیں۔

جنیوا میں ایران کے مستقل نائب نمائندے مہدی علی عبادی نے اس رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹ اور بددیانتی پرمبنی ہے اور مغربی طاقتیں اقوام متحدہ کی آڑ میں اس طرح کی رپورٹوں کے ذریعہ ایران کواچھوت بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا،”انسانی حقوق کے اعلیٰ اصولوں اور پیمانوں کو معمولی سیاسی آلہ تک محدود کردینا انتہائی شرمناک اور افسوس ناک ہے۔”

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں