اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزارت خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے رپورٹ جمع کرا دی، عدالتی ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ ڈاکٹر فوزیہ کی عافیہ صدیقی سے ملاقات کیلئے سہولت فراہم کرے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمعہ 24 جون کو امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل ڈاکٹر ساجد قریشی کے ساتھ عدالت پیش ہوئی، جب کہ وزارت خارجہ کی جانب سے ڈائریکٹر یو ایس اے راحیل محسن عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹ عدالت کے روبرو جمع کروائی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سوال کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ ہوا؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ نہیں ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
نمائندہ وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ سے رابطہ کیا مگر انہوں نے رابطہ منقطع کر دیا۔ جیل انتظامیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی فیملی سے کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہ رہی۔ بتایا گیا کہ جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی رابطہ نہیں کرنا چاہتی تو ہم رابطے کیلئے ان پر زبردستی نہیں کرسکتے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت فیڈرل میڈیکل سینٹر ٹیکساس میں ہے۔ یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ڈاکٹر عافیہ کیوں فیملی کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا چاہیں گی۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پاکستانی کونسل جنرل نے درخواست گزار یا ان کی فیملی سے کوئی رابطہ کیا ہے ؟۔
فوزیہ صدیقی نے عدالت میں بیان دیا کہ عید، کرسمس، ہولی جیسے ہر مذہبی دن پر میرے بھائی نے جیل کے باہر دن گزارا، میرے بھائی کو ہمیشہ کہا گیا کہ عافیہ صدیقی وفات پاچکی ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ میں سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ پاکستانی کونسل جنرل حقائق کے خلاف بات کیوں کریں گے ؟۔
ڈاکٹر فوزیہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں شک ہو رہا ہے کیونکہ یہ ہماری ملاقات نہیں کرائی جاتی، بات نہیں کرائی گئی۔ وہاں ایک وکیل نے کہا کہ عافیہ سے ملاقات ہوتی تھی وہ شدید زخمی حالت میں تھی۔ اس دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل حکام ملاقات نہیں کرا رہے تو اس عدالت کو کیا حکم دینا چاہیے؟۔
وزارت خارجہ کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ قونصل جنرل درخواست گزار فوزیہ صدیقی کیساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے ڈاکٹر فوزیہ سے سوال کیا کہ آپ خود امریکا جاکر ان کو دیکھنا چاہیں گی؟ اس پر ڈاکٹر فوزیہ نے جواب دیا کہ میں جانا چاہتی ہوں مگر سفارتخانے کو میری حفاظت کا انتظام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایسا نہ ہو کہ میں وہاں جاؤں اور مجھے بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔ عدالت نے وزارت خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ کی فیملی کیلئے امریکا کے ویزے کی فراہمی کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 30 دنوں تک ملتوی کردی۔
عافیہ صدیقی
امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کی کہانی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے اہم رہنما اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔
خالد شیخ محمد کو گرفتاری کے بعد گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا جس کے بعد وہ اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔
عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے افغانستان کے صوبہ غزنی کی ایک جیل میں قید کے دوران ایف بی آئی کے اہل کاروں کی ایک ٹیم پر اس وقت قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ ان سے ‘القاعدہ’ کے ساتھ ان کے مبینہ روابط کی تفتیش کر رہے تھے۔
اگرچہ اس حملے میں کوئی اہل کار زخمی نہیں ہوا تھا۔ البتہ امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پیٹ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔
سال 2010 میں ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر حملے کے جرم سمیت سات مختلف الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بندوق چلانے کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا تھا۔
ایک امریکی عدالت نے 2012 میں عافیہ صدیقی کے مقدمے کی کارروائی کے مبینہ طور پر غیر شفاف ہونے سے متعلق عافیہ کے وکلا کے دعوؤں اور سزا کے خلاف دائر ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سنائی جانے والے قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔