واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/روئٹرز) امریکی سپریم کورٹ نے نیویارک کے ریاستی قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شہریوں کو عوامی مقامات پر بھی اسلحہ لے کر چلنے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کے بعد امریکی سینیٹروں نے گن کنٹرول کے حوالے سے ایک معتدل قانون منظور کرلیا۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں گن کنٹرول کے حوالے سے اپنی نوعیت کا یہ سب سے اہم فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ میں حالیہ عرصے میں عوامی مقامات پر لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
تین کے مقابلے میں چھ ججوں کی اکثریت سے دیے گئے اس فیصلے کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ نیویارک نیز لاس اینجلس اور بوسٹن جیسے بڑے شہروں میں اب کہیں زیادہ لوگ اسلحہ لے کر گھومیں گے۔
یہ فیصلہ اہم کیوں ہے؟
نیو یارک کے سن 1913 کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص عوامی مقام پر اسلحہ لے کر گھومنے کی اجازت چاہتا ہے تو اسے اس کے لیے “ٹھوس وجہ” بتانی پڑتی ہے۔ اس شخص کو ہتھیاروں کا لائسنس جاری کرنے والے افسرکو خیالی کے بجائے حقیقی وجوہات بتانی پڑتی ہے کہ آخر اسے اپنی دفاع کے لیے ہتھیار کی ضرورت کیوں ہے؟ شکار یا نشانے بازی کی مشق کے لیے بھی لائسنس جاری کیا جاسکتا ہے۔
نیویارک کے علاوہ امریکہ کی چھ دیگر ریاستوں میں بھی اسی سے ملتے جلتے قوانین موجود تھے۔
یہ فیصلہ نیویارک اسٹیٹ رائفل اینڈ پسٹل ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ کیس میں دیا گیا ہے۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والے دو افراد نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ انہوں نے اسلحہ چھپا کر گھومنے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی درخواست دی تھی لیکن ان کے پاس اسلحہ لائسنس ہونے کے باوجود اسے مسترد کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس طرح کی کوئی بھی پابندی امریکی آئین کی دوسری ترمیم سے متصادم ہے۔ یہ ترمیم امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے قدامت پسند جج جسٹس کلیرنس تھامس نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ آئین ایک فرد کو گھر سے باہر اپنے دفاع کے لیے ہینڈ گن رکھنے کا تحفظ فراہم کرتا ہے…ہمیں کسی اور آئینی حق کا علم نہیں، جس پر عمل درآمد کے لیے ایک فرد کو حکومتی اہلکاروں کے سامنے اُسکی خصوصی ضرورت کو واضح کرنا پڑے۔
تاہم عدالت کے تین آزاد خیال ججوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا۔
صدر جو بائیڈن کا ردعمل
اسلحہ رکھنے کے حوالے سے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد سپریم کورٹ کا ایسا اہم فیصلہ سامنے آیا ہے اور اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ اب زیادہ تعداد میں امریکی قانونی طور پر اسلحہ لے کر گھومیں گے۔ اسلحے کے استعمال اور اس سے ہونے والے جان لیوا واقعات کی روک تھام کو لے کر اس وقت امریکہ میں گہری سیاسی تقسیم پائی جاتی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ”شدید مایوس ہوئے ہیں، جو ان کے مطابق ”عقل اور آئین، دونوں سے متصادم ہے، اور ہم سب کو اس پر شدید تشویش ہونی چاہیئے”۔
انہوں نے ریاستوں پراس حوالے سے نئے قوانین منظور کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”میں ملک بھر کے امریکیوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ گن سیفٹی کے لیے اپنی آواز بلند کریں کیونکہ زندگیاں داو پر لگی ہیں۔”
اب کیا ہوگا؟
امریکی آبادی کی تقریباً ایک چوتھائی اس فیصلے سے متاثر ہوگی کیونکہ اسی طرح کے قوانین متعدد دیگر ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔
کیلفورنیا کے گورنر نے اس فیصلے کو “عاقبت نااندیش” قرار دیا اور اپنی ریاست میں ایک نیا قانون لانے کا وعدہ کیا۔
نیو یارک شہر کے میئر ایرک ایڈمز نے کہا کہ وہ عام شہریوں کی اسلحے تک رسائی کو محدود کرنے کے دیگر طریقوں کا جائزہ لیں گے، جیسے کہ اسلحہ خریدنے کے لیے درخواست کے عمل کو سخت کرنا اور بعض مقامات پر پابندی کو مدنظر رکھنا۔ ان کا کہنا تھا کہ”ہم نیویارک کو ‘ وائلڈ ویسٹ’ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”
ٹیکساس، نیویارک اور کیلفورنیا میں فائرنگ کے بڑے واقعات کے بعد امریکی کانگریس بندوق کے استعمال کے حوالے سے ایک قانون پر غور کررہی ہے۔ سنیٹروں نے جمعرات کی شام کو اس سلسلے میں 33 کے مقابلے میں 65 ووٹوں سے اس بل کو منظوری دے دی۔ امید ہے کہ ایوان نمائندگان میں بھی یہ بل پاس ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ میں 390 ملین سے زیادہ بندوقیں قانونی طور پر عام شہریوں کی ملکیت میں ہیں۔ صرف سن 2020 میں، 45000 سے زائد امریکی، اسلحے کے استعمال سے متعلق واقعات میں ہلاک ہوئے، جن میں قتل اور خودکشی شامل ہیں۔