اسلام آباد (ڈیلی اردو) برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع کی گئی ایک ڈچ صحافی کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ امریکی فوج افغان طالبان کے بانی اور سابق امیر ملا محمد عمر کو ان کے بیس کے قریب کئی برس تک رہائش رکھنے کے باوجود تلاش کرنے میں ناکام رہی ۔
دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں افغانستان سے رپورٹنگ کرنے والے ڈچ صحافی اور مصنف بیٹ ڈیم کی کتاب ‘سرچنگ فار اینیمی’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی گئی تھی اور وہ افغانستان میں امریکی بیس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی حکام کی جانب سے ملاعمر کو بھی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی طرح پاکستان میں موجود ہونے کا خیال ظاہر کیا جاتا رہا۔ تاہم وہ ان کے مرکز کے قریب رہائش پذیر تھے۔
کتاب کے حوالے سے رپورٹ میں 2001 کے بعد ملاعمر کے طالبان پرعملی کنٹرول کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ افغان طالبان 2013 میں ان کی وفات کے بعد دو سال تک بھی انہیں اپنا امیر تسلیم کرتے رہے۔ افغان طالبان نے ملا محمد عمر کو تاحیات اپنا سربراہ تسلیم کررکھا تھا۔
رپورٹ میں لکھا گیاہے کہ ملاعمر بی بی سی پشتو کی نشریات باقاعدگی سے سنتے تھے لیکن کسی خبر یا رپورٹ پر اپنا ردعمل بہت کم دیتے اور یہاں تک اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر پربھی ملا محمد عمر کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کو امریکی خفیہ ایجنسیوں کی شرم ناک ناکامی قرار دیاگیا ہے کیونکہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد ملاعمر کے سرکی قیمت 10 ملین ڈالر مقرر کی گئی تھی۔
ڈچ صحافی بیٹ ڈیم 2006 سے افغانستان سے رپورٹنگ کررہے ہیں اور اس کتاب پر گزشتہ 5 برس سے زائد عرصے سے کام کررہے تھے۔ وہ اس سے قبل افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی پر ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان دور کے اہم رہنما جبار عمری سے ایک ملاقات ہوئی جو ملاعمر کی سچی کہانی سنانے کا مصدقہ ذریعہ تھے۔ کتاب میں شائع مواد میں ملاعمر سے متعلق معلومات انہی سے حاصل کی گئی ہیں۔
افغانستان میں کشیدگی کے ابتدائی چار برس میں ملا عمر خطے کے دارالحکومت قالات میں رہتے تھے اور یہ رہائش امریکی بیس ایف او بی لغمان اور افغان حکومت کے صوبائی گورنر کے کمپاؤنڈ سے چند قدم کی دوری پر تھی۔
رپورٹ کے مطابق ان کی رہائش جبار عمری کے سابق ڈرائیوراستاد عبدالصمد کے گھر میں تھی ۔ استاد عبدالصمدکا گھر ایک چھوٹا سا کمپاؤنڈ تھا۔ اس گھر میں افغان روایت کے مطابق اونچی دیواریں تھیں جس کے کونے پر ایک خفیہ کمرہ بنایا گیا تھا ۔خفیہ کمرے کے دروازے کو چھپانے کے لیے دیوار میں ایک بڑی الماری کی شکل بھی دی گئی تھی۔
ڈچ صحافی نے لکھا ہے کہ گھر کے مکینوں کو بھی مہمان کی شناخت کے حوالےسے کچھ نہیں بتایا گیا تھا تاہم اتنا علم تھا کہ طالبان کے اعلیٰ سطح کے رہنما ہیں جبکہ معلومات کو ظاہر کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
امریکی فوجیوں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز دو مرتبہ ملاعمر کے اتنے قریب پہنچیں کہ وہ ٹھوکر بھی مارسکتے تھے جن میں سے پہلی دفعہ ملاعمر اور جبار عمری برآمدے میں تھے لیکن فوجی اندر داخل ہوئے بغیر واپس چلے گئے۔ڈچ صحافی کے مطابق امریکی فورسز نے دوسری مرتبہ ان کے گھر کی تلاشی لی لیکن وہ خفیہ کمرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد انہوں نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور ضلع شینکہ منتقل ہوئے۔
بیٹ ڈیم کا دعویٰ ہے کہ جبار عمری نے اپنے امیر کے لیے ایک چھوٹے دریا کے قریب خفیہ رہائش گاہ بھی تعمیر کی تھی جو مضافات میں تھی اور وہاں سے فرار ہونا بھی آسان تھا جبکہ ان کے یہاں منتقل ہونے کے فوری بعد امریکی فوجیوں نے چند میل کے فاصلے پر دوسرا بیس تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جب جنگ عروج پر تھی تو امریکہ اور نیٹو ممالک سمیت ایک ہزار فوجی قریبی بیس میں تھے اور ملا عمر کو بھی پکڑے جانے کا خدشہ تھا لیکن وہ دوبارہ وہاں سے واپس نہیں گئے۔ملاعمر یہاں رہائش کے دوران بہت کم باہر نکلتے تھے تاہم دھوپ کے لیے کبھی باہر آتے تھے اور زیادہ وقت چھپے رہتے تھے کیونکہ امریکی طیارے فضا میں گردش کرتے رہتے تھے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملاعمر کو دوحہ میں طالبان کے دفتر کھولنے اور اپنی سرپرستی کے لیے بھی کہا گیا تھا جس کے ذریعے امریکہ سے مذاکرات کا راستہ کھولنا تھا۔جبارعمری نے ڈچ صحافی کو بتایا کہ ‘یہ ہمارے لیے بہت خطرناک تھا کیونکہ بعض اوقات ہم اور غیرملکی فوجوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا’۔
انہوں نے کہا کہ ملاعمر کے حوالے سے صرف دو بھائی آگاہ تھے لیکن گاؤں کے دیگر افراد کو اتنا معلوم تھا کہ یہاں طالبان کے ایک سینئر رہنما رہتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جب افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ افراد کی جانب سے حکومت میں کرپشن اور شہریوں کی ہلاکتوں کی رپورٹس آئیں تو ملاعمر کو گاؤں والوں کی طرف سے تحائف بھی آنے لگے جس میں کھانا اور کپڑے شامل ہوتے تھے۔
ڈچ صحافی کے مطابق ملاعمر کے پاس بغیر سم کے نوکیا کا ایک پرانا موبائل تھا جس کو وہ اپنی آواز میں قرآن کی تلاوت ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔جبار عمری کا کہنا تھا کہ ملاعمر 2013 میں کھانسی، متلی اور بھوک میں کمی کا شکار ہوئے۔ لیکن کسی قسم کی دوا لینے سے انکار کیا جبکہ عمری نے انہیں ڈاکٹر بلانے یا پاکستان لے جانے کی پیش کش کی۔ لیکن وہ انکاری رہے اور 23 اپریل کو انتقال کرگئے۔
انہوں نے کہا کہ ملاعمر کو رات کے اندھیرے میں دفنایا اور اس کی ویڈیو بنائی تاکہ ان کے بیٹے یعقوب اور سوتیلے بھائی عبدالمنان کو دکھا سکیں۔ انہوں نے 2001 سے ملاعمر کو نہیں دیکھا تھا لیکن انتقال کے بعد ان کی رہائش گاہ میں کئی مرتبہ آئے اور تصدیق کے لیے ان کی قبر کشائی پر اصرار کرتے رہے۔
رپورٹ میں جبار عمری کے حوالے سے دعوی کیا گیاہے کہ زابل کے دور دراز علاقے میں سادہ سے قبرستان میں ملا عمر مدفون ہیں۔