ماسکو (ڈیلی اردو/وی او اے) روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ روس کچھ مہینوں میں بیلاروس کو اسکندر ایم موبائل گائیڈڈ میزائل سسٹم فراہم کرے گا۔
Russia to send Belarus nuclear-capable missiles within months https://t.co/L8jUsAlVIE
— Al Jazeera English (@AJEnglish) June 25, 2022
اسکندر ایم میزائل کی رینج 500 کلو میٹر تک ہے اور یہ روایتی اور جدید جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Russia will transfer nuclear-capable missile systems to its ally Belarus over the coming months, Russian President Vladimir Putin said. https://t.co/YZcHUTn1VK
— CNN International (@cnni) June 26, 2022
روسی صدر نے یہ اعلان ہفتے کو سینٹ پیٹرز برگ میں اپنے بیلاروسی ہم منصب الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات کے دوران کیا۔ لوکا شینکو نے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اسے ہمسایہ ملکوں پولینڈ اور لیتھوینیا کی جانب سے ‘جارحانہ’ اور ‘تصادم’ پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے تشویش ہے۔
لوکاشینکو نے پوٹن سے ملاقات کےد وران کہا کہ امریکہ کی زیرِ قیادت نیٹو اتحاد کی طرف سے جوہری ہتھیاروں سے لیس طیاروں کی پروازوں کے پیشِ نظر اسے مدد کی ضرورت ہے۔
یہ پیش رفت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب یوکرین کی شمالی فوجی کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس نے بیلاروس سے یوکرین کے علاقے چرنی ہیف کے قصبے ڈیسنا میں 20 راکٹ داغے ہیں۔
ٰیوکرینی ایئر فورس کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران پہلی مرتبہ روس کے ٹی یو-22 بمبار طیارے بھی یوکرین پر بمباری کے لیے بیلاروس سے اُڑان بھر رہے ہیں۔
یوکرین پر روسی جارحیت سے قبل بھی روس نے یہاں اپنی فوجی یونٹس تعینات کررکھی تھیں اور یوکرین پر حملے کے بعد یہاں سے بھی روسی افواج نے یوکرین پر چڑھائی کی تھی۔ تاہم بیلاروس کی افواج نے تاحال سرحد پار کر کے یوکرین میں کوئی کارروائی نہیں کی۔
یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ راکٹ حملے کے ذریعے روس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اب بیلاروس بھی اس جنگ میں شامل ہو چکا ہے۔
یوکرین کی نیو کلیئر ایجنسی کے مطابق روسی گولہ باری سے ہفتے کو شمال مشرقی شہر خارکیف میں ایک جوہری تحقیقی مرکز کو نقصان پہنچا۔
ایجنسی کا ایک بیان میں مزید کہنا تھا کہ ان حملوں سے ارد گرد کی کچھ عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم ایجنسی کے بقول ان حملوں سے نیوکلیئر ایندھن رکھنے والے علاقے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔