بھارتی ریاست گجرات میں فسادات: متاثرین کا کیس لڑنے والی وکیل کی گرفتاری پر احتجاج

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارتی ریاست گجرات کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی جانب سے سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کی گرفتاری پر سخت ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے فسادات میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کو قانونی معاونت کرنے والی وکیل کی گرفتاری پر تشویش کاا ظہار کیا ہے۔

تیستا سیتلواڈ انسانی حقوق کی نجی تنظیم ’سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس‘ سے وابستہ ہیں اور کئی برسوں سے بھارت میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ انہیں ہفتے کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تیستا کو ممبئی میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا اور انہیں پہلے مقامی پولیس تھانے میں اور پھر احمد آباد لے جایا گیا۔

اس کے علاوہ ریاست کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

گجرات پولیس نے ان پر کئی الزامات لگائے ہیں جن میں فسادات کے سلسلے میں فرضی شواہد تیار کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔

انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور وکلا نے اس گرفتاری پر گجرات پولیس اور سپریم کورٹ پر نکتہ چینی کی ہے۔

یہ گرفتاری وزیر اعظم نریندر مودی کو گجرات فسادات کے الزامات سے بری کیے جانے سے متعلق خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو سپریم کورٹ کی جانب سے خارج کیے جانے کے ایک روز بعد عمل میں آئی۔

گجرات فسادات میں ہلاک ہونے والے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ 84 سالہ ذکیہ جعفری اور تیستا سیتلواڈ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے خلاف سخت ریمارکس دیے تھے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

گجرات فسادات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو الزامات سے بری کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ذکیہ جعفری اور تیستا سیتلواڈ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو پہلے ذیلی عدالت پھر گجرات ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے قبل دونوں عدالتوں نے بھی درخواست خارج کر دی تھی۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا’ نے ہفتے کو ایک بیان جاری کرکے گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ یہ گرفتاری ان لوگوں کے خلاف انتظامیہ کی براہ راست انتقامی کارروائی ہے۔ جو اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھانے کی جرات کرتے ہیں۔

بیان میں گرفتاری کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے انہیں فوراً رہا کرنے اور سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف کارروائی کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسو سی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) نے بھی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ تیستا کو فوراً رہا کیا جائے اور ان کے خلاف معاملہ ختم کیا جائے۔

تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے افسوس ناک طریقے سے ذکیہ جعفری کی درخواست خارج کیے جانے کے بعد گجرات پولیس نے تیستا کو جو کہ ذکیہ کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی تھیں، گرفتار کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ انہیں ان کی قابلِ ذکر جرات کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدے دار نے بھی تیستا کی گرفتاری پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی میری لوالور نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ تیستا نفرت اور امتیازی رویے کے خلاف ایک مضبوط آواز ہیں۔ انسانی حقوق کا دفاع کرنا جرم نہیں ہے۔ وہ ان کی رہائی اور بھارتی حکومت سے ان کے خلاف کارروائی بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں۔

انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ گجرات فسادات کے مبینہ ذمہ دار یا تو بری ہو چکے ہیں یا سزا یافتہ ہونے کے باوجود انہیں ضمانت مل گئی ہے۔ تیستا سیتلواڈ، آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ کو ان کی جرات کی وجہ سے ’فرضی الزامات‘ کی بنیاد پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔

متعدد وکلا نے سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کرنے اور یہ ریمارکس دینے پر کہ جو لوگ عدالتی عمل کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کی مذمت کی ہے۔ جن میں آئین کے ایک ماہر اور قانونی اسکالر گوتم بھاٹیہ بھی شامل ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہا تھا کہ ذکیہ جعفری، تیستا سیتلواڈ کی ہدایت پر کام کر رہی ہیں۔

انھوں نے خبررساں ایجنسی اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے کہا کہ ذکیہ جعفری کسی دوسرے کے کہنے پر کام کر رہی ہیں۔ امت شاہ نے الزام لگایا کہ این جی او نے کئی متاثرین کے حلف ناموں پر دستخط کیے اور انہیں پتا تک نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ تیستا سیتلواڈ کی این جی او یہ کام کر رہی ہے۔ یو پی اے حکومت نے اس این جی او کی مدد کی تھی۔

امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ وزیر ِاعظم مودی نے گجرات فسادات سے متعلق جھوٹے الزامات کو 19 برس تک خاموشی سے برداشت کیا کیونکہ اس معاملے میں قانونی عمل جاری تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے الزام عائد کیا ہے کہ فسادات کے وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف تیستا سیتلواڈ کی مہم کے پیچھے کانگریس صدر سونیا گاندھی کا ہاتھ تھا۔

بی جے پی کی ترجمان سمبت پاترا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو گرم رکھنے کے ذمہ دار لوگوں کو پکارتے ہوئے سیتلواڈ کا نام لیا۔ سمبت پاترا نے سیتلواڈ پر فساد متاثرین کی مدد کے لیے اکٹھا کی گئی رقوم میں خردبرد اور اپنے اوپر خرچ کرنے کا الزام لگایا۔

گجرات فسادات کب اور کیوں ہوئے تھے؟

خیال رہے کہ 27 فروری 2002 کو ایودھیا سے لوٹنے والی سابر متی ایکسپریس کو گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پہنچنے پر نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جس میں 59 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر تعداد ہندو یاتریوں کی تھی۔

اس کے بعد گودھرا سمیت پوری ریاست میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔

قبل ازیں جب بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے گجرات فسادات کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان پر عائد کیے جانے والے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ بی جے پی بھی ان پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی رہی ہے۔

خیال رہے کہ فسادات شروع ہونے کے ایک روز بعد 28 فروری کو احمد آباد میں واقع مسلمانوں کے ایک رہائشی کمپلکس گلبرگ سوسائٹی پر فسادیوں نے حملہ کیا تھا جس میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت 68 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے عدالت میں اپیل دائر کرکے اپنے شوہر احسان جعفری اور دیگر ہلاک شدگان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر الزام عائد کیا تھا کہ فسادات بھڑکانے کی سازش میں وہ بھی شامل تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گلبرگ سوسائٹی میں حملے کے وقت ذکیہ پہلی منزل پر ایک کمرے میں چھپ گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہیں۔

بعدازاں انہوں نے 2006 میں فسادیوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی اور مسلمانوں کی ہلاکت کی سازش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر نے پولیس اور اعلیٰ افسروں کو فون کیا مگر کسی نے مدد نہیں کی۔

یہ واقعہ گلبرگ قتل عام کیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جو اس وقت ریاست میں ہونے والے دس بدترین فسادات میں سے ایک تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں