تہران (ڈیلی اردو/اے پی/روئٹرز/اے ایف پی) ایران کا کہنا ہے کہ وہ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے ازسر نو بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
Exclusive: Chances for Iran nuclear deal worse after Doha talks, U.S. official says https://t.co/c4Qeb04PGd pic.twitter.com/ZoszQs01i0
— Reuters (@Reuters) June 30, 2022
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی امریکہ کے ساتھ نئے مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے سلامتی کونسل کو جمعرات کے روز بتایا، ”ایرانی مذاکراتی ٹیم تعمیری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”اب یہ فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے۔ اگر امریکہ عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے سنجیدہ رویہ اپناتا ہے تو معاہدہ ہونا ناممکن نہیں ہے۔‘‘
روانچی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایران اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو چکے ہیں۔ روانچی نے تاہم دوحہ مذاکرات کو ”سنجیدہ اور مثبت‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران ”اگلے مرحلے کی بات چیت کے لیے‘‘ یورپی یونین کے مذاکرات کاروں کے ساتھ رابطہ کرے گا۔
’پانی الٹی سمت بہہ رہا ہے‘
دوحہ مذاکرات کے بعد ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے باعث سن 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات اور بھی کم ہو گئے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ”دوحہ مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ بہتا پانی قرار دیا جا سکتا ہے یا اسے واپسی کا سفر کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت یہ پانی الٹی سمت بہہ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے تاہم ان امور کی تفصیلات نہیں بتائیں، جن پر دوحہ میں بات چیت ہوئی۔
امریکی عہدیدار نے ایران کے اس موقف کو بھی مسترد کیا ہے، جس کے مطابق مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018ء میں امریکہ کو ایران جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا اور تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
پیچیدگی کہاں ہے؟
اجلاس کے دوران ایرانی سفیر نے کہا، ”ایران امریکہ سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ اس معاہدے سے الگ نہیں ہو گا اور اس کی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر پھر سے پابندیاں عائد نہیں کرے گا۔‘‘
امریکہ کے نائب سفیر رچرڈ ملز نے اس کے جواب میں کہا کہ واشنگٹن باہمی اتفاق کی بنیاد پر ایران جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ کے حوالے سے اب بھی اپنے عہد پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپریل 2021ء میں مذاکرات کے آغاز میں ہی تہران کو بتا دیا تھا کہ امریکہ ایران کو اس بات کی کوئی قانونی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مستقبل کی امریکی انتظامیہ اس معاہدے پر قائم رہے گی۔
ملز کا کہنا تھا،”ہم کہہ چکے ہیں کہ ہم مستقبل کی انتظامیہ کو اس پر پابند رکھنے کا کوئی قانونی راستہ نہیں رکھتے۔ اس لیے ہم نے اس کے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے مطابق یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا امریکہ مارچ میں ویانا میں ہونے والی باہمی مفاہمت کی بنیاد پر معاہدے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہے، ”لیکن ہم صرف اسی صورت میں معاہدہ کر سکتے اور اسے نافذ کر سکتے ہیں، جب ایران اپنے ان اضافی مطالبات کو ترک کر دے، جو جوہری معاہدے کے دائرے سے باہر ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ ویانا مذاکرات مارچ کے بعد سے ہی معطل ہیں۔
دریں اثنا اقوام متحدہ میں یورپی یونین کے سفیر اولوف اسکوگ نے کہا، ”ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاہدے کو حتمی انجام تک پہنچانا چاہئے۔‘‘ اقوام متحدہ نے بھی ایران اور امریکہ دونوں سے جلد از جلد معاہدے تک پہنچنے کی اپیل کی۔