اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزیراعظم شہبازشریف کو طلب کرنے کا عندیہ دے دیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارلیمنٹ اور حکومت بے بس ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے اندر ریاست ہے، اگر آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت مسنگ پرسنز کو بازیاب کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاتی تو وزیراعظم 9 نومبر کو پیش ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے درخواستوں پرسماعت کی۔
سابق صدر پرویز مشرف کا نام لئے بغیر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ ریاست کی پالیسی تھی اوراس چیف ایگزیکٹو نے 9 سال ملک پر حکومت کی تھی، صحافی مدثر نارو کیس میں ملکی معتبر خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے لیکن منتخب حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں، منتخب حکومتوں کا ردعمل جیسا ہونا چاہیئے تھا ویسا نہیں ہے۔
فرحت اللہ بابر نے عدالت میں ریاستی ایجنسیز جبری گمشدگی میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرنے کا کہا تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تسلیم کررہے ہیں کہ ان ادروں پر سویلین کنٹرول اور نگرانی نہیں ہے، اگر وزیراعظم کسی بات سے منع کرے تو وہ اسے ماننے کے پابند ہیں اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو مس کنڈکٹ کی کارروائی ہونی چاہیئے، اس پر منتخب حکومت اور پارلیمنٹ نے کیا کیا ہے؟ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جن اداروں میں جبری لاپتہ کیا گیا ہے اس دور کے چیف ایگّیزیکٹیو کیخلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کر رہے ہیں جس میں پرویز مشرف سے لے کر پی ٹی آئی حکومت تک کے چیف ایگزیکٹیو صاحبان سے بیان حلفی طلب کیا ہوا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے وزیراعظم کو سمن کرنے اور وضاحت دینے کی اسدعا کی جبکہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی تائید کرتے ہوئے ان کیمرہ سماعت کا مؤقف اپنایا۔
عدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں پر عملی اقدامات کرے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر عدالت 9 ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف کو بھی طلب کرسکتی ہے۔