اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینکر پرسن اور یوٹیوبر صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے بعد انہیں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بدھ کو عمران ریاض کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ منگل کی شب عمران ریاض لاہور سے واپس اسلام آباد آرہے تھے کہ انہیں اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس موقع پر پولیس اور رینجرز اہلکار موجود تھے۔
پولیس حکام کے مطابق عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک کے رہائشی ملک مرید عباس کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں کی گئی ہے۔
عمران ریاض خان کے خلاف تھانہ سٹی اٹک میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ اور دیگر 6 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں عمران ریاض خان نے پاکستان فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض کو حفاظتی ضمانت دے رکھی تھی اور منگل کی شب ان کی گرفتاری کے بعد رات گئے ہائی کورٹ کا عملہ عدالت پہنچا اور ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست وصول کرکے اسے نمبر جاری کیا۔ بعدازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بدھ کی صبح اس معاملے پر سماعت کا وقت مقرر کیا۔
بدھ کی صبح سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ رات کو رپورٹ آئی کہ عمران ریاض کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔
اس پر درخواست گزار کے وکیل میاں اشفاق نے جواب دیا کہ عمران ریاض نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہیں اور یہ گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی ہے۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی تھی جس پر میں نے لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی۔ لاہور ہائی کورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔ یہ بات چھپائی گئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے۔ عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک میں ہوئی اس لیے معاملے پر سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا ۔ یہ کورٹ پنجاب میں درج ہونے والے کیسز کی تفتیش نہیں کر سکتی ۔
درخواست گزارعمران ریاض کے وکیل نے بتایا کہ اس عدالت نے واضح احکامات دیے تھے جس کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی، پنجاب پولیس نے کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے ۔ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا۔عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کہہ رہی ہے گرفتاری پنجاب سے ہوئی، ہم کہہ رہے ہیں اسلام آباد سے ہوئی ہے۔
عدالت نے عمران ریاض کے وکیل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
سماعت کے بعد عمران ریاض کے وکیل میاں اشفاق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات متنازع ہے کہ گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی یا پھرپنجاب سے ہوئی۔ جس مقدمے میں گرفتاری ہوئی وہ 29 جون کو اٹک میں دائر ہوا،ہم نے ملک بھر میں ایف آئی ار درج ہونے کے سلسلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی 4 جون کو رپورٹ آئی تھی اور آئی جی پنجاب نے رپورٹ میں 17 مقدمات کی تفصیلات جمع کرائی ہے۔
ان کے بقول 29 جون کو دائر اس مقدمے کا ذکر چار جون کو پیش کی گئی رپورٹ میں نہیں ہے۔
میاں اشفاق نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرح توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے جس مقدمے کو چھپایا یہ وہی مقدمہ ہے جس میں عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا۔
عمران ریاض نے گرفتاری سے قبل گاڑی میں ویڈیو بھی بنائی تھی اور اسے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر بھی شائع کردیا تھا جس میں وہ خود پر درج ہونے والے مقدمات بتاتے ہوئے گرفتاری دینے کے لیے گاڑی سے نکلتے ہیں اور پھر انہیں پنجاب پولیس کی نفری اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
عمران ریاض کی پولیس اسٹیشن کے اندر کی بھی فوٹیجز جاری ہوئی ہیں جن میں وہ پولیس اہلکاروں سے تکیہ مانگ رہے تھے اور سلاخوں کے پیچھ کھڑے ہوئے تھے۔بدھ کی صبح ان کی عدالت میں پیشی کے وقت کی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جن میں وہ ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے کاغذات پر دستخط کررہے ہیں۔
عمران ریاض کے خلاف حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں کئی مقدمات درج کیے گئے جن میں ان پر پاکستان فوج کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے پر مقدمات بھی شامل ہیں۔
ان کے خلاف پیکاایکٹ کے تحت مقدمات درج ہیں جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان فوج کو بدنام کرنے کے الزامات ان پر عائد کیے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کی عمران ریاض خان کی گرفتاری کی مذمت
عمران ریاض گزشتہ کافی عرصہ سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت میں ہی پروگرام کررہے تھے اور ان کے مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کی گرفتاری پرپی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض محب وطن پاکستانی اور پیشہ ور صحافی ہیں، وہ بے باکی کے ساتھ عوام کے سامنے سچ لاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں “مجھے امید ہے کہ ججز توہین عدالت کا نوٹس لیں گے، عمران ریاض خان کی گرفتاری کے وقت موقع پر 15 ایس ایچ اوز موجود تھے۔”
عمران ریاض نجی ٹی وی پر ٹاک شو کرنے کے علاوہ یوٹیوب پر بھی دن میں دو سے تین شو کیا کرتے تھے جن میں وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی بھرپور حمایت اور ان کے مخالفین پر شدید تنقید کرتے تھے۔
عمران ریاض کے یوٹیوب چینل کے 31 لاکھ سے زائد فالورز ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اس چینل کی مدد سے وہ ایک امیر صحافی سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے کئی کئی کنال کا فارم ہاؤس، بلٹ پروف گاڑیاں اور 18 اسلحہ لائسنس لے رکھے تھے۔
عمران ریاض کی گرفتاری پر صحافیوں کی طرف سے زیادہ حمایت نہیں دیکھی جارہی بلکہ صرف تحریک انصاف کے حمایتی صحافی ہی ان کے حق میں ٹوئیٹس کررہے ہیں۔ بعض صحافیوں نے ان کی گرفتاری کی مذمت تو کی لیکن ساتھ ہی انہیں ایک سیاسی جماعت کا ورکر بھی کہا ہے۔
چند روز قبل اسلام آباد میں ایک تقریب میں پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے عمران ریاض نے پاکستان فوج کے بارے میں کہا تھا کہ اس بار ان کا سامنا ٹکر کے لوگوں سے ہوا ہے اور ہم لڑائی کے لیے تیار ہیں۔اس کے بعد عمران ریاض نے پاکستان فوج کے لاہور میں تعینات ایک سینئر افسر کا نام بھی سوشل میڈیا پر لکھا اور کہا کہ انہیں کچھ ہونے کی صورت میں وہ افسر ذمہ دار ہوں گے۔
عمران ریاض کے خلاف درج مقدمات پر پاکستان تحریک انصاف ان کی حمایت کررہی ہے اور سوشل میڈٰیا پر بھی ان کے نام سے ٹرینڈ بنائے جارہے ہیں۔