کولمبو (ڈیلی اردو/بی بی سی) سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں حکومت مخالف مظاہرین صدرراجا پاکشے کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ مظاہرین ‘ گوٹا گھر جاؤ’ کے نعرے لگا رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق صدر راجا پکشے محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک صدر کہاں ہیں اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہیں۔
محکمہ دفاع سے منسلک ایک سینئیر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ کو محفوظ مقام پر لے جایا گیا ہے، وہ اب بھی صدر ہیں اور فوجی یونٹ ان کی حفاظت کر رہا ہے۔
کولمبو میں کشیدگی برقرار ہے۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ پولیس نے سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغ رہی ہے اور ہوا میں فائرنگ بھی کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس کی کارروائی میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں انھیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
منظر عام پر آنے والی ویڈیو فوٹیج میں مظاہرین صدراتی دفتر میں کرسیوں پر بیٹھے اور سوئمنگ پول میں نہاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
سری لنکا میں قیمتوں میں اضافے اور اشیائے ضروریہ کی قلت کے خلاف طویل عرصے سے مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرے میں شرکت کے لیے ملک کے کئی حصوں سے لوگ دارالحکومت کولمبو پہنچ چکے ہیں۔
مظاہرین صدر راجا پکشے کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سری لنکا کو گذشتہ کئی دہائیوں کے سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ملک میں پیٹرول، اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
دوپہر ایک بجے کے قریب مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ کچھ مظاہرین مین گیٹ پر چڑھ کر احاطے میں داخل ہوئے۔ احتجاجی مقام پر فوج کے جوان بھی تعینات ہیں۔
پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کرفیو لگا دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرین کی بڑی تعداد گال کرکٹ سٹیڈیم کے باہر بھی جمع ہو گئی ہے۔ یہاں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگ زخمی
سری لنکا کی پولیس نے ان لوگوں پر آنسو گیسکی شیلنگ کی جنھوں نے صدارتی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن یعنی پانی کی تیز دھاروں کا استعمال بھی کیا ہے۔
اس صورتحال میں کئی لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ وہاں سے آنے والی ویڈیو فوٹیج میں آنسو گیس کے گولوں سے زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال لے جایا جا سکتا ہے۔
کولمبو کے نیشنل ہسپتال نے بتایا ہے کہ ایک سکیورٹی گارڈ سمیت 33 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کی جانب سے اجلاس طلب
وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے صورتحال کے مطابق فیصلہ لینے کے لیے پارٹی رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ انھوں نے سپیکر سے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی بھی درخواست کی ہے۔
سری لنکا میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت کے خلاف سنیچر کو حکومت کے خلاف ریلی نکالی گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں، ٹریڈ یونینوں، طلبا اور کسان تنظیمیں بھی احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔
حکومت نے دارالحکومت کولمبو اور اس کے قریبی علاقوں میں ہونے والی اس ریلی سے قبل جمعے کی رات 9 بجے سے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ کرفیو جمعے کی رات 9 بجے سے اگلے احکامات تک نافذ کیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور باہر نہ نکلیں۔
احتجاجی ریلی کے دوران تشدد کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے فوج اور پولیس کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
مظاہرین ملک کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار صدر گوتابایا راج پاکشے پر عائد کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گذشتہ کئی ماہ سے معاشی بحران اور مہنگائی سے پریشان عوام سڑکوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران تشدد کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔
حالات اس نہج پر پہنچے کیسے؟
سری لنکا کا معاشی بحران وہاں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بہت سے لوگوں کا الزام ہے کہ یہ وہاں کی حکومت کی معاشی بد انتظامی اور کورونا کی وبا کے اثر کی وجہ سے ہوا ہے۔
غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے سری لنکا ضروری اشیا درآمد کرنے سے قاصر ہے جس میں تیل، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات جیسی چیزیں شامل ہیں۔
رواں برس مئی میں وہ تاریخ میں پہلی بار اپنے قرض کی قسط ادا کرنے میں ناکام رہا۔ پھر اسے 78 ملین ڈالر ادا کرنے تھے لیکن 30 دن اضافی دینے کے باوجود وہ ادا نہیں کر سکے۔۔
سری لنکا اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف سے تقریباً 3.5 بلین ڈالر کی بیل آؤٹ رقم کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کے لیے وہ بات چیت کر رہا ہے۔
سری لنکا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اس سال آئی ایم ایف سمیت عالمی برادری سے پانچ بلین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے۔
50 ارب ڈالر کا مقروض
خیال رہے کہ سری لنکا اور اس کے 22 ملین عوام اس وقت ضروری اشیا کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔
سری لنکا پر اس وقت 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا غیر ملکی قرض ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں پٹرول، ادویات اور خوراک جیسی ضروری اشیا بہت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کوبتایا کہ ملک ”دیوالیہ ہو چکا ہے” اور اس کا یہ سنگین معاشی بحران کم سے کم آئندہ برس کے اواخر تک یونہی برقرار رہے گا۔
وکرما سنگھے کا کہنا تھا کہ اس بحران سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاہم بیل آؤٹ پیکج پر گفت شنید کا انحصار قرض دہندگان کے ساتھ قرض کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے پر منحصر ہے، جو اگست تک ممکن ہو سکے گا۔