کولمبو (ڈیلی اردو/بی بی سی) سری لنکا میں مظاہرین کی جانب سے صدارتی محل پر دھاوے کے بعد صدر گوتابایا راجاپکشے نے اعلان کیا ہے کہ وہ عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل مظاہرین نے سری لنکا کے وزیر اعظم کے گھر کو بھی نظر آتش کر دیا تھا۔
صدر گوتابایا راجاپکشے اور وزیر اعظم اس وقت اپنے اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے۔
واضح رہے کہ ہزاروں مظاہرین نے ملک کے دارالحکومت کولمبو کا رخ کیا جہاں وہ صدر کے استعفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سے قبل سری لنکا میں معاشی بحران پر کئی ماہ سے مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
صدر گوتابایا راجا پکشے 13 جولائی کو مستعفی ہوں گے۔
سری لنکا کی پارلیمنٹ کے سپیکر نے کہا ہے کہ صدر نے ’اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے‘ استعفی دینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ’قانون کا احترام کریں۔‘
اس اعلان کے بعد کولمبو شہر میں جشن کی سی کیفیت تھی اور آتش بازی بھی ہوئی۔
فیونا سرمنا، جو صدر کے گھر پر ہونے والے مظاہرے میں شریک تھیں، نے کہا کہ ’اب وقت آ چکا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور سری لنکا کے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بہت افسوس ہے کہ وہ پہلے نہیں چلے گئے کیوں کہ اگر ایسا پہلے ہی ہو جاتا تو پھر اتنا نقصان نہ ہوتا۔‘
سری لنکا کو 70 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور اس وقت خوراک، ایندھن اور ادویات کی درآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔
سری لنکا کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور حال ہی میں حکومت نے نجی گاڑیوں کو پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی وجہ سے ایندھن حاصل کرنے کے لیے طویل قطاریں لگ گئیں۔
اتوار کو سری لنکا میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات مہینوں تک پر امن رہنے والے مظاہروں کا انجام بتائے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ اتوار کو مظاہرین کا ایک بڑا ہجوم صدر راجاپکشے کی سرکاری رہائش گاہ کی جانب نعرے لگاتا اور قومی پرچم لہراتا آیا تھا جس نے بعد میں رکاوٹوں کو عبور کیا اور رہائش گاہ کے اندر داخل ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر موجود فوٹیج میں لوگ گھر میں گھومتے ہوئے اور سوئمنگ پول میں تیرتے ہوئے دکھائی دیے جب کہ کچھ کو درازیں خالی کرتے اور صدر کی ذاتی اشیا سمیٹتے ہوئے دیکھا گیا۔
صدارتی محل کی آسائشوں اور ملک کی عوام کی مشکلات کا فرق مظاہرین پر کافی واضح تھا۔
چنوکا جےسوریہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’جب ملک پر اتنا دباؤ تھا، تو لوگ اسی دباؤ سے نکلنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ جب آپ یہاں موجود آسائشوں کو دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس ملک کے لیے کام کرنے کا وقت نہیں تھا۔‘
سری لنکا کے لیے یہ ایک غیر معمولی وقت ہے۔
تشدد سے بھرپور دن کے بعد ملک کے دو سینیئر ترین رہنماوں نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس خبر سے احتجاج کے مرکزی مقام پر جشن کا آغاز ہو گیا۔ شہر کے مختلف حصوں میں آتش بازی ہوئی۔
میں بھی ایک احتجاجی مقام پر موجود تھا۔ بہت سے مظاہرین گھروں کو لوٹ رہے ہیں لیکن ہزاروں اب بھی یہاں موجود ہیں۔ کچھ موسیقی کے آلات بجا رہے ہیں تو کچھ گیت گا رہے ہیں اور خوشی منا رہے ہیں۔
صرف چند دن قبل ہی صدر راجا پکشے اور وزیر اعظم وکرما سنگھے کی پارلیمنٹ میں مسکراتی ہوئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔
اس پر بہت سے لوگوں کو غصہ آیا جن کا کہنا تھا کہ دونوں خوش دکھائی دیتے ہیں جب کہ لاکھوں لوگوں کو تین وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ لیکن سیاست میں ایک ہفتہ بہت طویل وقت ہوتا ہے۔
وزارت دفاع کے ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ صدر راجاپکشے نے جمعے کے دن اپنی سرکاری رہائش گاہ احتیاطی تدابیر کے تحت چھوڑ دی تھی کیوں کہ احتجاجی مظاہرے ہونے تھے۔
اگرچہ کہ یہ صدر راجا پکشے کی سرکاری رہائش گاہ ہے لیکن عام طور پر وہ نزدیک واقع ایک اور گھر میں سوتے ہیں۔
مظاہرین نے وزیر اعظم وکرما سنگھے کے گھر کو بھی نظر آتش کر دیا تھا جو کولمبو کے ایک متمول سمجھے جانے والے علاقے میں واقع ہے۔
انھوں نے اس واقعے سے قبل کہا تھا کہ وہ ’عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مستعفی ہونے کو تیار ہیں تاکہ تمام جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم کی جا سکے‘ لیکن ان کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد ان کے گھر کو آگ لگانے کی ویڈیوز سامنے آئیں۔
وزیر اعظم اپنے خاندان کے ساتھ اپنی ذاتی رہائش گاہ پر ہی رہتے ہیں اور سرکاری رہائش گاہ کو صرف کام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے استعفوں کے اعلان کے بعد مظاہرین مطمئن ہو جائیں گے یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
کولمبو کے انسانی حقوق کے وکیل بھوانی فونسیکا نے کہا کہ ’صرف دو استعفوں سے مطالبات پورے نہیں ہوں گے کیوں کہ مطالبہ سسٹم کی تبدیلی کا ہے لیکن کم از کم یہ ایک شروعات ضرور ہے کہ صدر اور وزیر اعظم رخصت ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے خبر دار کیا کہ ’اقتدار کی پر امن منتقلی ہونا ضروری ہے جو ابھی تک نہیں ہوئی۔‘