واشنگٹن (ڈیلی اردو/ وی او اے/رائٹڑز) بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کو حملوں کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے ممکنہ خاتمے کے بارے میں غور و خوض کر رہی ہے، لیکن، معاملے سے واقف چار ذرائع کے مطابق، کسی بھی حتمی فیصلے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا ریاض پڑوسی ملک یمن میں جنگ کے خاتمے کی طرف پیش رفت کرتا ہے یا نہیں۔
تین ذرائع نے صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے قبل دعوی کیا ہے کہ ریاض کے سینئر حکام نے حالیہ مہینوں میں اپنے امریکی ہم منصبوں پر زور ڈالا ہے کہ امریکہ خلیجی شراکت داروں کو صرف دفاع کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی ختم کرے۔
دو ذرائع کے مطابق امریکہ کی اندرونی بات چیت غیر رسمی ہے اور ابتدائی مرحلے میں ہے اور فوری طور پر کسی فیصلے کے آثار نہیں ہیں۔ جبکہ ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ’ فی الوقت‘ سعودی عرب کے ساتھ جنگی ہتھیاروں کی فروخت پر کوئی بات چیت نہیں چل رہی ہے۔
لیکن ایسے میں جب صدر بائیڈن سفارتی طور پر اس حساس دورے کی تیاری کر رہے ہیں، انہوں نے اشارے دیے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات ایسے میں بہتر کریں گے جب وہ خلیجی تیل کی سپلائی میں اضافہ چاہتے ہیں اور ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹڑز کے مطابق سعودی حکومت نے اس بارے میں ردِ عمل کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
کانگریس کے معاونین کا کہنا ہے کہ لڑائی کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کے خاتمے جیسے اقدام کو کانگریس کے اندر صدر بائیڈن کے ساتھی ڈیموکریٹس اور حزب اختلاف کے ریپبلکن رہنماؤں، دونوں کی طرف سے مخالفت کا یقینی طور پر سامنا ہو گا جو سعودی عرب پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی مہم ، جس میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے، ریاض کے انسانی حقوق کے ریکارڈ بالخصوص سال 2018 میں واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خشوگجی کے قتل جیسے اسباب پر صدر بائیڈن نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے خلاف سخت موقف اختیار کیے رکھا ہے۔
بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم میں سعودی عرب کو ایسی ریاست قرار دیا تھا جسے تنہا کر دیا جانا چاہیے اور فروری 2021 میں یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی حمایت اور اس کے لیےہتھیاروں کی فروخت ختم کردی تھی۔
سعودی عرب امریکہ سے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے اور ان پابندیوں کی زد میں آیا ہے جو امریکہ کی طرف سے کئی دہائیوں سے جاری فروخت کو منجمد کرتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق مارچ میں روس کے یوکرین پر حملے کے باعث، صدر بائیڈن کی سعودی عرب سے متعلق حکمت عملی میں نرمی آئی ہے۔ اس جنگ کے سبب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ روسی سپلائیز کی بندش کے سبب تیل کی پیداوار بڑھائیں۔
سعودی عرب نے جون میں یمن جنگ میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی عارضی جنگ بندی میں دو ماہ کی توسیع پر بھی وائٹ ہاوس سے ستائش حاصل کی تھی۔ یمن جنگ کو دنیا کے ایک بدترین بحران کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
امریکہ کی اب خواہش ہو گی کہ یمن جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو۔
واشنگٹن میں صورت حال سے واقف ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ انتظامیہ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کے خاتمے کے امکانات پر اندرونی طور پر غوروخوض شروع کر دیا ہے تاہم انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ ابھی تک یہ بات چیت کسی فیصلہ کن نتیجے تک نہیں پہنچی ہے۔