کولمبو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) سری لنکن صدر گوتابایا راجاپکسے کے ملک سے فرار کے بعد وزیرِ اعظم رانیل وکراماسنگھے نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جب تک صدر ملک سے باہر ہیں اس وقت تک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ رہے گی۔
سری لنکا میں وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے نے پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ ملک کے سرکاری ٹی وی چینل کی نشریات بھی معطل کر دی گئی ہے۔
سری لنکا میں معاشی و سیاسی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے اور وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان کے مطابق ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے مغربی صوبے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
مشتعل مظاہرین نے وزیر اعظم کے دفتر پر دھاوا بول دیا ہے اور احتجاج کرتے ہوئے وہ وزیراعظم کے دفتر کے اندر داخل ہو گئے ہیں تاہم سری لنکن وزیر اعظم اس وقت اپنے دفتر میں موجود نہیں بلکہ وہ گذشتہ چند روز سے روپوش ہیں۔ لہذا اس وقت انھیں مشتعل مظاہرین سے براہ راست کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
البتہ وزیر اعظم دفتر میں داخل ہونے والے مظاہرین خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تصاویر بنوا رہے ہیں اور چند وزیر اعظم دفتر کی بالکونیوں میں موجود نظر آ رہے ہیں۔
ایمرجنسی کے اعلان کے بعد ہزاروں مظاہرین وزیرِ اعظم آفس کے باہر جمع ہو گئے جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وزیرِ اعظم وکرامے سنگھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔ اس سے قبل صدر گوتابایا نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدھ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاہم وہ استعفے کا اعلان کیے بغیر بذریعہ فوجی طیارہ مالدیپ پہنچ گئے ہیں۔
اس سے قبل ملک کے سرکاری ٹی وی چینل ’روپاویہنی‘ نے اپنی نشریات معطل کر دی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مشتعل مظاہرین کے ہجوم کے سرکاری ٹی وی کی عمارت میں داخل ہونے کے باعث انجینئرز نے چینل کی نشریات کو بند کیا۔
سری لنکا کی پارلیمان کے سپیکر کے مطابق وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ صدر پکسے بدھ کو اپنی اہلیہ اور دو محافظوں کے ہمراہ فضائیہ کے طیارے میں ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع اور صدر پکسے کے قریبی حلقوں کا بتانا ہے کہ مفرور صدر اس وقت مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں ہیں جب کہ امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت موجودہ صدر کو ملک چھوڑنے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔
اس سے قبل پیر اور منگل کی درمیانی شب سری لنکن صدر نے متحدہ عرب امارات فرار ہونے کی کوشش کی تھی تاہم ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام سے تکرار کے بعد وہ ہوائی اڈے کے قریب واقع ملٹری بیس پر چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ ہفتے کو مظاہرین نے صدارتی محل کا گھیراؤ بھی کیا تھا جس کے بعدصدر گوتابایا راجاپکسے نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدھ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے تاکہ متحدہ حکومت قائم کی جا سکے۔
رائٹرز’ نے صدر گوتابایا کے قریبی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ صدر اپنا استعفیٰ بدھ کو ہی پیش کر دیں گے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم رانل وکراماسنگھے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کر چکے ہیں۔ سری لنکن آئین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو اس صورت میں پارلیمنٹ کے اسپیکر مہندا یاپا ابی وردنا قائم مقام صدر بن جائیں گے اور وہ اس وقت تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔
اسپیکر ابی وردنا نے پانچ روز قبل کہا تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس 14 جولائی کو ہو گا جس میں ملک کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس کب ہو گا اور صدر گوتابایا کے استعفے کے بغیر نئے صدر کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ راجا پکسے خاندان گزشتہ کئی برسوں سے سری لنکا کی سیاست میں نمایاں پوزیشن پر رہا ہے۔ موجودہ صدر گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے نے شدید عوامی احتجاج کے بعد مئی میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا۔ جب کہ ان کے ایک اور بھائی باسل نے رواں برس اپریل میں وزیرِ خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
واضح رہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے سری لنکا کے سیاحت کو بری طرح متاثر کیا تھا جب کہ بیرونِ ملک سے آنے والے زرِ مبادلہ میں کمی اور کھادوں میں استعمال ہونے والے کیمیل پر پابندی نے بھی سری لنکا کی معیشت کو دھچکا دیا تھا۔
سری لنکا کو پیٹرول، گیس، خوراک اور ادویات کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایندھن کے حصول کے لیے شہریوں کو طویل قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ صورتِ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔
سری لنکا میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 54 اعشاریہ چھ فی صد ریکارڈ کی گئی تھی اور مرکزی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران یہ 70 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔