تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی) صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا ہے کہ امریکہ ایران کا ہمیشہ کے لیے انتظار نہیں کرے گا کہ وہ دوبارہ جوہری معاہدے کا حصہ بنے جبکہ اس سے ایک روز قبل جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ آخری حربے کے طور پر ضرورت پڑنے پر تہران کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب ایران کے صدر ابراہم رئیسی نے کہا کہ واشنگٹن جس زبان میں بات کر رہا ہے وہ تہران کے لیے کارگر نہیں ہو گی اور ایران ان کے بقول اپنے منطقی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
#BREAKING Iran president warns US and its allies against undermining regional security after Biden signs Israel pact pic.twitter.com/6n3hAR9rZU
— AFP News Agency (@AFP) July 14, 2022
صدر بائیڈن نے ایران کے بارے میں ان خیالات کا اظہار تہران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق اسرائیل کے وزیراعظم یائر لیپڈ کے ساتھ پرائیویٹ گفتگو کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔
U.S. President Joe Biden and Prime Minister Yair Lapid signed a joint declaration in Jerusalem to deny Iran nuclear arms https://t.co/CnyFLLQgJX pic.twitter.com/ooIsZjos5E
— Reuters (@Reuters) July 15, 2022
امریکہ کے صدر نے کہا کہ واشنگٹن نے ایران کی قیادت کے سامنے جوہری معاہدے کی طرف واپسی کا ایک راستہ رکھا ہے اور ابھی تک ہم جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
’’ تب کیا ہو گا، میں اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔۔۔ ہم ہمیشہ کے لیے انتظار نہیں کرنے والے‘‘۔ یہ الفاظ تھے صدر بائیڈن کے۔
اگرچہ جو بائیڈن نے کہا کہ ایران سے متعلق ان کی قوت برداشت کم ہو رہی ہے، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایران کو معاہدے کا حصہ بنانے کے لیے ترغیب دی جا سکتی ہے۔
’’ مجھے اب بھی یقین ہے کہ سفارتکاری نئائج حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘
بائیڈن کی سفارتی حل کی خواہش کے بارے میں اسرائیل کے وزیراعظم یائر لیپڈ کی رائے مختلف تھی۔ پریس کانفرس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کی حکومت کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر انہوں نے دنیا کے ساتھ دھوکہ دہی جاری رکھی تو ان کو بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو روکنے کا واحد طریقہ قابل بھروسہ فوجی دھمکی ہے۔
لیپیڈ نے کہا کہ میرے اور بائیڈن کے درمیان ایران کے معاملے پر تفریق نہیں ہے اور ہم ایران کو جوہری قوت بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کی کوششوں سے ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس نے جوہری ہتھیار بنانے کے غرض سے یورینیم افزودگی کو ترک کرنا تھا اور اس کے بدلے میں تہران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جانا تھی۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 میں امریکہ کو یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکال لیا تھا لیکن صدر بائیڈن نے جیسے ہی ذمہ داریاں سنبھالیں اس جوہری معاہدے کی بحالی ان کی ترجیح رہی ہے۔ تاہم انتظامیہ کے عہدیداروں وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ پرامید نہیں ہیں کہ ایران کو اس معاہدے کی تعمیل کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
صدر بائیڈن نے مشرق وسطی کے اس دورے میں سعودی عرب جانے سے قبل جمعرات کو اسرائیل کے راہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ سکیورٹی کے معاملات، یوکرین میں جنگ اور امریکہ اسرائیل تعلقات ان کے ایجنڈے میں سر فہرست ہیں۔
صدر بائیڈن نے اسرائیل کے نگران وزیراعظم یائر لیپڈ کے ساتھ اسرائیل کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ایک معاہدے پر دستخطوں کے ساتھ اس مقصد کے لیے امریکہ کے عزم کا اعادہ کیا۔
صدر بائیڈن نے وزیراعظم لیپڈ کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ صرف ان کی انتظامیہ نہیں بلکہ امریکہ کی اکثریت اسرائیل کی سلامتی کے لیے مکمل وقف ہے۔
ایران کا ردعمل
ادھرخبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ امریکہ جس طرح کی دباو ڈالنےوالی زبان استعمال کر رہا ہے یہ ایران کے لیے کارگر نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اپنے جائز اور منطقی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
صدارتی دفتر کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق صدر رئیسی نے اپنی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے حد درجہ دباو کی مہم بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ حقائق کو دیکھے اور ماضی سے سبق سیکھے بجائے اس کے کہ ایران پر، ان کے بقول ناکام تجربات دوہراتا ہے۔
’’ ایران کے لوگوں کے ساتھ دباو والی زبان کام نہیں کرے گی۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ اب بھی وہی سبق دوہرا رہے ہیں جو یقینی طور پر ان کے لیے کوئی نتیجہ نہیں لے کر آئیں گے‘‘
انہوں نے کہا کہ ایران نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ ہم اپنا جائز اور منطقی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ امریکہ مزید کتنی بار وہ تجربات دوہرانا چاہتا ہے جو ایران کو کبھی بھی امریکہ کے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے ہیں۔