اسلام آباد (ڈیلی اردو) عالمی مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والا ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ستمبر میں کسی وقت اپنا آن سائٹ مشن پاکستان بھیجے گا، اس دورے کو اسلام آباد میں سفارتی حلقے ملک کے لیے ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے عمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اگرچہ مشن کے دورہ اسلام آباد کی تاریخ سفارتی ذرائع سے طے کی جا رہی ہے لیکن سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ موسم خزاں کے اوائل میں ہو گا۔
برلن میں اپنے گزشتہ ماہ کے پلانری اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے ابتدائی فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان نے 34 آئٹمز پر مشتمل اپنے دو ایکشن پلانز کو کافی حد تک مکمل کر لیا ہے۔
اب یہ اس بات کی تصدیق کے لیے سائٹ کا دورہ کرے گا کہ پاکستان میں انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام (سی ایف ٹی) پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور جاری ہے جبکہ مستقبل میں عملدرآمد اور بہتری کے لیے سیاسی عزم بھی موجود ہے۔
سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں جانے سے ایک نئی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے معاشی اور مالیاتی بحران پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کر سکیں گے۔
سال 21-2020 کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ میں ایف اے ٹی ایف نے نوٹ کیا کہ پاکستان نے اپنے اصل ایکشن پلان کے مطابق انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت کے اقدامات کو مضبوط بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے ساتھ ایک نیا ایکشن پلان تیار کرنے کے لیے بھی کام کیا، جس میں یہ ظاہر کرنا شامل ہے کہ مالیاتی نگران غیر مالیاتی شعبے کے کاروبار پر سائٹ اور آف سائٹ چیک رکھتے ہیں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور قانونی کارروائیوں بشمول بیرون ملک مالی اعانت کے مقدمات میں اضافے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے واک تھرو دوست ممالک کے لیے بھی راہ ہموار کرے گا، پاکستان بالخصوص مغربی یورپی ممالک کے ساتھ اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔
پاکستان بھی امریکا کے ساتھ دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے اور معلوم ہوا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کی مدد کے لیے چھ اہم شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، پانی، موسمیاتی تبدیلی اور تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔
جمعہ کو واشنگٹن سے امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی نے وزیر تجارت سید نوید قمر سے ورچوئل میٹنگ کی جس میں پاک امریکا تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات کو فروغ دینے کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکی تجارتی دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس وقت امریکا کا 56 واں سب سے بڑا تجارتی شراکتدار ہے، جس کی دو طرفہ تجارت 2019 میں تقریباً 6 ارب 60 کروڑ ڈالر تھی۔ اس میں سے، امریکی برآمدات مجموعی طور پر 2 ارب 60 کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 3 ارب 90 کروڑ ڈالر رہیں، یعنی امریکا ایک ارب 30 کروڑ کے خسارے میں تھا۔
امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان میں غذائی تحفظ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تاہم یہ زرعی شعبے میں ملک کی مدد کرنے کے لیے خاص طور پر بڑی فصلوں کی نئی اقسام تیار کرنے کے لیے تحقیق میں نئے طریقے اور ذرائع تلاش کرنا چاہتا ہے۔