سری لنکا: عبوری صدر وکرمے سنگھے نے بھی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا

کولمبو (ڈیلی اردو/روئٹرز/ڈی پی اے) سری لنکا کے قائم مقام صدر رانیل وکرمے سنگھے کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری معاشی بدحالی کے درمیان فی الوقت سماجی بے چینی پر قابو پانے اور امن عامہ اور خدمات کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

سری لنکا میں اتوار کو رات دیر گئے جاری کیے گئے ایک سرکاری نوٹس کے مطابق قائم مقام صدر رانیل وکرمے سنگھے نے ملک میں ایک بار پھر سے ہنگامی حالت نافذ کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا نے بھی حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے۔

ایمرجنسی سے متعلق اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ”عوامی سلامتی، امن عامہ کے تحفظ اور کمیونٹی کی زندگیوں کے لیے ضروری سامان اور خدمات کی بحالی کے مفادات کے پیش نظر ایسا کرنا درست ہے۔”

سری لنکا گزشتہ کئی مہینوں سے شدید اقتصادی اور سیاسی بحران سے نبرد آزما رہا ہے۔ ملک خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت جیسے مسائل سے دو چار ہے۔ ان وجوہات کے سبب ملک میں اب بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

مشکلات کی وجہ سے عوام میں سیاسی قیادت کے خلاف اس قدر غم و غصہ اور ناراضی ہے کہ اس کے نتیجے میں صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ گزشتہ ہفتے ملک سے فرار ہونے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ بھیجا، جسے گزشتہ جمعے کے روز تسلیم کر لیا گیا۔

ان کے استعفے کے بعد وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے والے وکرمے سنگھے نے عبوری صدر کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔

سیاسی بحران کے سبب آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیر

ہفتے کے روز سری لنکا کی پارلیمنٹ کا اجلاس نئے صدر کے انتخاب کا عمل شروع کرنے کے لیے ہوا تھا اور اسی دوران بحران سے متاثرہ ملک کے لیے ایندھن کی ایک کھیپ بھی پہنچی، جس سے کچھ راحت ملی۔

سری لنکا نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ایک بیل آؤٹ پیکج کے لیے فنڈز کی اپیل کی ہے، تاہم ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی کے سبب اس پیکج سے متعلق مذاکرات میں تاخیر ہوئی ہے۔

سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرمے سنگھے نے جولائی کے پہلے ہفتے میں پارلیمنٹ میں قانون سازوں کو بتایا تھا کہ ملک ”دیوالیہ ہو چکا ہے” اور اس کا یہ سنگین معاشی بحران کم سے کم آئندہ برس کے اواخر تک برقرار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بحران سے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاہم بیل آؤٹ پیکج پر گفت شنید کا انحصار قرض دہندگان کے ساتھ قرض کی تنظیم نو کے منصوبے کو حتمی شکل دینے پر منحصر ہے، جو اگست تک ممکن ہو سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ بات چیت سے امید تو پیدا ہوئی ہے، ”تاہم اس بار صورتحال مختلف ہے، کیونکہ ماضی میں ہماری بات چیت ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر ہوتی تھی۔”

ادھر ملک کے مرکزی بینک کے سربراہ نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا ہے کہ رواں برس ملکی معیشت کے چھ فیصد سے بھی زیادہ سکڑنے کی توقع ہے۔

سابق صدر راجا پاکسے کے فرار ہونے کے بعد، سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں قدرے کمی آئی ہے۔ لیکن اس ماہ کے اوائل میں مظاہروں کے دوران صدر کے دفتر پر قبضہ کر لیا گیا تھا اور تقریباً 500 افراد اس کے کچھ حصے پر اب بھی قابض ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں