تہران (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے، تاہم اس نے فی الحال اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینیئر مشیر کمال خرازی نے قطری ٹیلیویژن چینل الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تہران کے پاس جوہری بم بنانے کی تکنیکی طور پر صلاحیت موجود ہے لیکن اس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا جوہری بم بنائے یا نہ بنائے۔
عاجل | كمال خرازي للجزيرة: نرحب بتصريحات #السعودية عن مد يد الصداقة ومستعدون للحوار وإعادة العلاقات معها إلى طبيعتها
— الجزيرة – عاجل (@AJABreaking) July 17, 2022
کمال خرازی کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ایک روز قبل ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کے اپنے چار روزہ دورے کے دوران، ایران کو “جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے” کا عزم ظاہر کیا تھا۔
Khamenei adviser says Tehran 'capable of building nuclear bomb,' Al Jazeera reports https://t.co/IOk9a2kOgD
— Reuters Iran (@ReutersIran) July 17, 2022
خرازی کا بیان اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں میں دلچسپی ہے حالانکہ وہ ایک عرصے سے اس بات سے انکار کرتا رہا ہے۔
???? لقاء خاص / الجزيرة @AJArabic
رئيس المجلس الاستراتيجي للسياسات الخارجية في #إيران د. #كمال_خرازي
????زيارة #بايدن للمنطقة
????#السعودية وقمة جدة
????#اسرائيل
???? العتبة النووية والقنبلة
????الحوار الإقليمي
????#أمريكا و #الاتفاق_النووي
????????
أهم ما جاء في اللقاء على يبث كاملا لاحقا pic.twitter.com/omuS8FZmrd— Abdalqader fayez عبدالقادر فايز (@abdalkaderfaeez) July 17, 2022
کمال خرازی کا کہنا تھا، “چند دنوں میں ہم 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہم آسانی سے 90 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں… ایران کے پاس نیوکلیئر بم بنانے کے تکنیکی ذرائع ہیں لیکن ایران نے اسے بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔”
جوہری بم بنانے کے لیے 90 فیصد افزودہ یورینیم کافی
ایران پہلے ہی 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرچکا ہے جو کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے سن 2015 کے جوہری معاہدے سے بہت زیادہ ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت ایران کو صرف 3.67 فیصد یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی۔ 90 فیصد افزودہ یورینیم سے جوہری بم بنائے جاسکتے ہیں۔
سن 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو جوہری معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔ حالانکہ اس معاہدے کے تحت ہی ایران نے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں یورینیم افزودگی کے اپنے منصوبے پر کام روک دیا تھا۔
ایران کے وزیر انٹیلیجنس نے گزشتہ برس کہا تھا کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے پڑنے والے دباو کی وجہ سے تہران کو جوہری ہتھیار تیار کرنا پڑسکتا ہے۔ خامنہ ای نے سن2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک فتوی کے ذریعہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی عائد کردی تھی۔
ایران طویل عرصے سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے انکار کرتا آ رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف سویلین توانائی کے مقاصد کے لیے یورینیم کو ریفائن کر رہا ہے۔ تہران کا مزید کہنا ہے کہ اگر امریکہ پابندیاں ہٹاتا ہے اور معاہدے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو وہ بھی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
ایران بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی بات نہیں کرے گا
مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ برس ویانا میں با ت چیت شروع ہوئی تھی تاہم یہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ بات چیت مارچ سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران کا کہناہے کہ امریکہ اس بات کی ضمانت دے کہ وہ آئندہ اس معاہدے سے الگ نہیں ہوگا تاہم صدر بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا وعدہ کرنا سیاسی اسباب کی بنا پر ممکن نہیں ہے۔
کمال خرازی نے کہا کہ “چونکہ امریکہ جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی ضمانت نہیں دے رہا ہے اس طرح وہ اس معاہدے کے امکانات کو ختم کررہا ہے۔”
دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے جاری سفارت کاری ناکام ہوجاتی ہے ہے تو وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کرسکتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے سینیئر مشیر اور سابق وزیر خارجہ کمال خرازی نے کہا کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام اورعلاقائی پالیسی پر کبھی بھی بات نہیں کرے گا جیسیا کہ مغرب اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں کا مطالبہ ہے۔
انہوں نے کہا،”اگر پڑوسی ملکوں سے ہمارے سکیورٹی کو کسی طرح کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ان ممالک اور اسرائیل کو براہ راست جواب دیا جائے گا۔ ”