لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پرائم منسٹر سٹریٹجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی نے کہا ہے کہ دعا زہرہ کو عدالت کے حکم کے بعد سخت سکیورٹی میں دارالامان منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے مبینہ شوہر ظہیر کی تلاش جاری ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ ظہیر کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس انھیں تلاش کر رہی ہے۔
Update on #DuaZehra
Punjab Gov has secured Dua Zehra at Dar UL Aman under strict security and protection after a court order.
Sindh Government has been requested to dispatch a child protection bureau team to take her to her parents.
Mr Zaheer is being traced for arrest.
— Salman Sufi (Get New Covid Booster Today) (@SalmanSufi7) July 19, 2022
سلمان صوفی نے بتایا کہ حکومت سندھ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ایک ٹیم لاہور بھیجیں جو دعا کو ان کے والدین کے پاس لے جا سکے۔
یاد رہے کہ چند دن قبل سلمان صوفی نے کہا تھا کہ سندھ پولیس کی درخواست پر پنجاب پولیس کو دعا زہرہ کیس میں ظہیر کو گرفتار کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب پولیس سے کہا ہے کہ ظہیر کا پتہ لگائیں اور اسے گرفتار کریں اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے کہا ہے کہ بچی کو اپنے سینٹر میں رکھیں۔‘
انھوں نے لکھا تھا کہ ’بچوں سے بدسلوکی کے معاملے پر کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘
سلمان صوفی کی آج کی ٹویٹ کے جواب میں دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ آپ کی نگرانی میں کسی اجنبی، میڈیا کے کسی شخص، ملزم کے اہلخانہ اور ایف آئی آر میں نامزد 33 افراد کو بچی تک رسائی نہیں ہو گی۔‘
’دعا زہرہ کو جب مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تو اس وقت ظہیر کراچی میں موجود تھا‘
16 جولائی کو دعا زہرہ اغوا کیس کے تفتیشی افسر نے ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جمع کرائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ کراچی سے جب دعا زہرہ کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تو اس وقت ظہیر اسی شہر میں موجود تھا۔
اس سے قبل دعا زہرہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خود ہی کراچی سے ٹیکسی میں سوار ہو کر لاہور پہنچی تھیں جبکہ ظہیر کا کہنا تھا کہ وہ دعا کے اس اقدام سے لاعلم تھے اور لاہور پہنچ کر ہی دعا نے ان کو فون کیا تھا۔
عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں تفتیشی افسر نے موبائل فون نمبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ظہیر احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور واقعے والے دن اس کی لوکیشن کراچی میں ہی پائی گئی۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 363 اور کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون کی دفعات شامل کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے۔
اس مقدمے میں 33 ملزمان نامزد ہیں جن میں ظہیر کی والدہ نور بی بی سمیت آٹھ خواتین بھی شامل ہیں۔ تفتیشی پولیس کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی پنجاب سے بازیابی کے لیے محکمہ سندھ سے اجازت طلب کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ اس مقدمے میں نکاح خواں اور گواہ پہلے ہی گرفتار ہیں جبکہ دعا کاظمی کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر ظہیر احمد کی گرفتاری اور تفتیش کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
دعا کے والد کی جانب سے تفتیشی افسر کی تبدیلی کے لیے بھی عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ مقامی عدالت نے قرار دیا تھا کہ نکاح رجسٹرار اور متعلقہ افراد کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ نکاح سے متعلقہ شناختی دستاویزات کی چھان بین کریں کیونکہ عمر سے متعلق محض زبانی طور پر بتانا قابل قبول نہیں۔
کراچی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے گذشتہ ہفتے دعا زہرہ کیس میں مختصر فیصلہ سُنا کر نکاح خواں غلام مصطفیٰ اور گواہ علی اصغر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور پھر بدھ کو اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں نکاح کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور نکاح رجسٹرار کے کردار پر بحث کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تمام نکاح رجسٹرار اور وہ افراد جو شادی میں بطور گواہ شرکت کرتے ہیں اُن کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کی چھان بین کریں، زبانی طور پر عمر بتانا اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک بطور ثبوت کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی جاتیں۔
عدالت کے مطابق عمر کی یہ دستاویز قومی رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کا شناختی کارڈ، بی فارم، سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ، یونین کونسل کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ یا عمر کا تعین کرنے والی اتھارٹی سے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ قابل قبول ہو سکتا ہے۔
عدالت نے دونوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ نکاح خواں حافظ غلام مصطفیٰ نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی جبکہ نکاح کے گواہ اصغر علی کی کوئی ساکھ نہیں۔
عدالت نے کہا کہ سنگین جرم مغویہ کی نفسیات کو تباہ کر سکتا ہے، اس کے باعث مغویہ کے خاندان کو عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے، یہ ایک بد نما داغ ہے جس کا سامنا خاندان والوں کو کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کا گھناؤنا جرم کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پولیس نے دعا زہرہ اغوا کیس میں پیش کیے گئے چالان میں گرفتار ملزمان غلام مصطفیٰ اور اصغر کو بے گناہ قرار دیا ہے اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔
ملزم ظہیر احمد کی حفاظتی ضمانت کی منظوری
اس سے قبل دعا زہرہ اغوا کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے دعا کے مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی گرفتاری 14 جولائی تک کے لیے روک دی تھی۔
میڈیکل بورڈ کی جانب سے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے بعد ان کے والد نے کراچی کی مقامی عدالت سے ایک بار پھر اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے درخواست دی تھی جس میں سندھ پولیس کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
ادھر مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی جانب سے ممکنہ گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا تھا کہ ایف آئی آر کب درج ہوئی۔
عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اغوا کا مقدمہ 16 اپریل کو درج ہوا تھا جبکہ کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے بیان دیا گیا کہ وہ از سر نو تفتیش کر رہے ہیں۔
دعا زہرہ کے والد کی درخواست
دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ نئے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرا کی عمر 16 سال سے کم ثابت ہو چکی ہے۔
درخواست گزار کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میرج ایکٹ 2016 کے مطابق دعا اور ظہیر کی شادی غیرقانونی ہے اور عدالت دعا زہرا کو بازیاب کروانے کا حکم دے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ دعا کو ظہیر احمد کی ’غیر قانونی حراست‘ سے بازیاب کروا کر والدین کے حوالے کیا جائے اور مغویہ کے ساتھ اگر جنسی زیادتی ثابت ہوتی ہے تو ملزم ظہیر کے خلاف کارروائی کی جائے۔دعا کے والد نے عدالت سے استدعا کی کہ دعا زہرا کو ملک سے باہر جانے سے بھی روکا جائے۔
اس سے قبل چار جولائی کو دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروائی گئی تھی جس کے مطابق ان کی عمر 15 اور 16 سال کے درمیان اور 15 سال کے قریب ہے۔
دعا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے عدالت میں جمع کروائی گئی میڈیکل رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے دعا کے والدین کے مؤقف کی تصدیق کی ہے اور گذشتہ میڈیکل رپورٹ کو مسترد کیا ہے جس میں دعا زہرہ کی عمر 17 سال بتائی گئی تھی۔
جبران ناصر کے مطابق ’اس طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نادرا کے دستاویزات درست ہیں اور دعا حقیقت میں 14 سال کی بچی ہے۔‘
جبران ناصر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب جب میڈیکل بورڈ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دعا کم عمر ہے تو اس کے اغوا کے دائر مقدمے میں پولیس کو خود کارروائی کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ عدالت انھیں حکم جاری کرے۔
یاد رہے کہ پولیس نے اپنے چالان میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ لڑکی بالغ ہے اور وہ اپنے مرضی سے گھر سے گئی ہے لہذا اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔
دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ ’پولیس اگر ٹال مٹول کا رویہ برقرار رکھتی ہے تو وہ پھر عدلیہ سے رجوع کریں گے۔‘
بی بی سی کے پاس موجود میڈیکل بورڈ کی اس رپورٹ میں دس رکنی بورڈ نے اتفاق رائے سے یہ حتمی فیصلہ دیا کہ دعا زہرہ کی عمر 15 اور 16 سال کے درمیان اور پندرہ سال کے قریب ہے۔
اس ٹیم کی سربراہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر صبا سہیل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کا تفصیلی جسمانی معائنہ کیا گیا اور ان کے دونوں ہاتھوں، دونوں کہنیوں، پیلوس، دانتوں وغیرہ کے ایکسرے کیے گئے۔
جبران ناصر نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے پولیس اور عدلیہ دونوں میں بہتر طریقہ کار اور تربیت کی ضرورت ہے۔
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ڈھائی مہینوں تک والدین کو اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنی پڑی جبکہ دعا خود سے بے خبر اور ناقابل تصور خطرے میں تھیں۔‘