سری لنکا: مظاہرین کے کیمپ پر فوجی کارروائی، کئی رہنما گرفتار

کولمبو (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی/اے ایف پی) سری لنکا کی مسلح افواج اور پولیس نے دارالحکومت کولمبو میں حکومت مخالف مظاہرین کی طرف سے قائم کردہ کیمپ پر چھاپہ مار کر کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ بعض مظاہرین نے فورسز پر تشدد کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

سری لنکا کے نئے صدر رانیل وکرما سنگھے کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے محض ایک دن بعد پولیس اور فوج نے جمعے کی علی الصبح مشترکہ طور پر دارالحکومت کولمبو میں قائم حکومت مخالف احتجاجی قائم کیمپ پر چھاپہ مار کر مظاہروں کا اہتمام کرنے والے کئی رہنماؤں کوگرفتار کر لیا ہے۔

اس کارروائی کے بعد دارالحکومت کولمبو میں صدارتی سکریٹریٹ کا کنٹرول اب مکمل طور پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ فوجیوں نے صدارتی محل سے متصل احتجاجی مقام پر نصب خیموں کو بھی تباہ کر دیا، اور تقریباً 100 مظاہرین کے ساتھ علاقے کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔

نئے صدر رانیل وکرما سنگھے معزول صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے ہی ایک اتحادی تھے اور وہ ملک کے چھ بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اس لیے ایک حلقہ ان کو بھی اسی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے حصے کے طور پر دیکھتا ہے جو سری لنکا کے موجودہ سیاسی و معاشی مسائل کے لیے ذمہ دار ہیں۔

کیمپ میں کیا ہوا؟

کولمبو میں حکومت مخالف احتجاجی کیمپ پر فوج کے حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جس میں ایک بڑی تعداد میں فورسز کو مظاہرین کے خیموں کی طرف مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

فوج اور پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس کے کمانڈوز لاٹھیوں اور رائفلوں سے لیس تھے، جو صدارتی سکریٹریٹ میں خیمہ زن مظاہرین پر اچانک جھپٹ پڑے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ انہیں اس کے لیے پہلے وارننگ تک نہیں دی گئی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے دفتر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ”مظاہرین کے مقام کا محاصرہ کرنے بعد جمعے کی صبح پولیس اور فوج نے اس پر دھاوا بول دیا اور ان میں سے کئی کو گرفتار کر لیا۔”

فوجیوں نے صدراتی محل کی عمارت کے مرکزی دروازے کو بلاک کرنے کے لیے کھڑی کی گئی ان رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا ہے، جنہیں مظاہرین اس ماہ کے آغاز میں اس عمارت پر جزوی طور پر قبضہ کرنے کے بعد کھڑا کیا تھا۔

مظاہروں کے منتظمین نے بتایا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 50 مظاہرین زخمی ہو گئے، جس میں بعض صحافی بھی شامل ہیں جن کو سیکورٹی فورسز نے مارا پیٹا۔

مظاہرین کی جانب سے کسی بھی صورت میں اس علاقے کو خالی کرنے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا، تاہم ان کے خالی کرنے سے چند گھنٹے قبل ہی چھاپے کی یہ کارروائی ہوئی۔ نئی کابینہ کی حلف برداری کے بعد ہی مظاہرین نے عمارت کو حکام کے حوالے کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان بھی کیا تھا۔

پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے پاس اس مقام کو اپنے قبضے میں رکھنے کا ”کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔”

وکرما سنگھے کو نیا صدر تو منتخب کیا گیا ہے تاہم مظاہرین کی ایک بڑی تعداد میں یہ ایک غیر مقبول انتخاب ہے۔ جمعرات کو صدر بننے کے بعد ہی نئے صدر نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں مسلح افواج کے ارکان کو حکم دیا گیا کہ وہ متعدد اضلاع میں امن عامہ کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھالیں۔

نئے صدر اور پرانی شکایات

سری لنکا کے قانون سازوں نے اس امید کے ساتھ وکرما سنگھے کی حمایت کی کہ انہیں حکومت چلانے کا ایک طویل تجربہ ہے جو ملک کو موجودہ معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ مظاہروں کے سبب سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے ملک سے فرار ہونے اور استعفیٰ دینے کے بعد نئے صدر کے انتخابات کی ضرورت آن پڑی تھی۔

تاہم بہت سے لوگ، وکرما سنگھے کی راجاپاکسے سے قربت نیز ملک کی سیاست میں ان کی دیرینہ اہمیت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی انہیں مشکلات و مسائل کا ایک حصہ ہیں، جنہیں اس وقت فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

بدھ کے روز صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کے بعد وکرما سنگھے نے سیاست دانوں سے ایک ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا اور ملک کو آگے لے جانے کی التجا بھی کی۔ تاہم مظاہرین اس سے خوش نہیں تھے اور وہ ”رانیل، گھر جاؤ!” کے نعرے لگاتے ہوئے صدارتی دفتر کی جانب آگے بڑھے تھے۔

سری لنکا میں صدر کا انتخاب عوام کے ذریعے براہ راست کیا جاتا ہے، تاہم اگر صدارت کی مدت باضابطہ طور پر ختم ہونے سے پہلے یہ عہدہ خالی ہوجائے، تو نئے صدر کے انتخاب کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں