ینگون (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کے فوجی حکام نے جمہوریت پسند چار کارکنوں کو پھانسی دے دی ہے جن پر “دہشت گردی کی کارروائیوں” میں مدد ک دینے کا الزام ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی دہائیوں بعد پہلی پھانسی ہے۔
امریکہ نے پیر کے روز میانمار کی جانب سے سیاسی کارکنوں اور منتخب اہلکاروں کو پھانسی دینے کی مذمت کی اور فوجی حکومت سے فوری طور پر تشدد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا، “امریکہ برما کی فوجی حکومت کی طرف سے جمہوریت کے حامی کارکنوں اور منتخب رہنماؤں کو وحشیانہ سزائے موت دینے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
خیال رہے کہ ” میانمار کو برما بھی کہا جاتا ہے۔
واشنگٹن نے میانمار کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ “ان لوگوں کو رہا کریں جنہیں انہوں نے بلاجواز حراست میں لیا ہے اور برما کے عوام کی خواہشات کے مطابق جمہوریت کی پرامن واپسی کی اجازت دیں”
ینگون میں چار سیاسی قیدیوں کی پھانسی کے بعد مظاہرین سڑکوں پر نکل ائے . لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوں گے۔
رپورٹس کے مطابق، اس سال جنوری میں بند کمرے کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان چار افراد کو موت کی سزا سنائی گئی تھی ۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ملیشیاؤں کو فوج سے لڑنے میں مدد فراہم کی جس نے گزشتہ سال بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اپنے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا اغاز کیا تھا ۔
میانمار کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این یو جی) نے مبینہ طور پر دی جانے والی ان پھانسیوں کی مذمت کی ہے ۔این یو جی ایک شیڈو انتظامیہ ہے ، جسے حکمراں فوجی جنتا نے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔
این یو جی کے صدر کے دفتر کے ترجمان کیاو زاؤ نے رائٹرز کو ایک پیغام میں بتایا کہ “ہمیں انتہائی دکھ ہوا اور ہم جنتا کے ظلم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں،عالمی برادری کو انہیں اس ظلم کی سزا دینی چاہیے۔”
اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار نے کہا ہے کہ پھانسی پانے والوں میں جمہوریت پسند کیو من یو، جو جمی کے نام سے مشہور ہیں، اور سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ آرٹسٹ فیو زیا تھاو شامل ہیں۔
53 سالہ کیاو من یو اور میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کے 41 سالہ حلیف فیو زیا تھاو، اپنی سزاؤں کے خلاف جون میں اپیلیں ہار گئے تھے۔ پھانسی پانے والے دیگر دو افراد ہل میو آنگ اور آنگ تھورا زاؤ تھے۔
میانمار میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “میں میانمار کے محب وطن اور انسانی حقوق اور جمہوریت کے چیمپیئن کو جنتا کی طرف سےدی جانے والی پھانسی کی خبر پر غمزدہ اور افسوس میں ہوں ۔”
انسانی حقوق کے ماہر اینڈریوز نے کہا، “میرا دل ان کے اہل خانہ، دوستوں اور پیاروں اور درحقیقت میانمار کے ان تمام لوگوں کے لیے دکھ رہا ہے جو جنتا کے بڑھتے ہوئے مظالم کا شکار ہیں, “یہ گھٹیا حرکتیں بین الاقوامی برادری کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوں گی۔”
پھانسی پانے والوں میں ایک پیو زیار تھا کی بیوی تھازین نیونٹ آنگ نے کہا ہے کہ انہیں اپنے شوہر کی پھانسی کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔ اس بارے میں تبصرہ کے لیے دیگر رشتہ داروں سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔
ان افراد کو نوآبادیاتی دور کی انسین جیل میں رکھا گیا تھا ۔ واقعات سے آگاہ ایک شخص نے بتایا کہ ان افراد کے اہل خانہ نے گزشتہ جمعہ کو جیل کا دورہ کیاتھا ۔ اس شخص نے بتایا کہ زوم آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے صرف ایک رشتہ دار کو زیر حراست افراد سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔
اخبار نے وضاحت کیے بغیر کہاہے کہ ان چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور تعزیرات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی اور سزا جیل کے طریقہ کار کے مطابق دی گئی تھی۔
سیاسی قیدیوں کے ایک سرگرم گروپ، اسسٹنس ایسوسی ایشن (اے اے پی پی) نے کہا ہے کہ میانمار میں عدالت کے زریعے دی جانے والی آخری پھانسی 1980 کی دہائی کے آخر میں دی گئی تھی ۔
مذمتی بیانات
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان پھانسیوں کی مذمت کی ہے ۔ ایمنسٹی کی سزائے موت سے متعلق مشیر اور مہم چلانے والی چیارا سانگیورجیو نے کہا ہے کہ پھانسی ایک “زبردست دھچکا” ہے اور یہ فوج کی “خود کو پیچھے چھوڑنے” اور یہ ظاہر کرنے کی ایک مثال ہے کہ وہ کس قابل ہیں۔
جاپان کے ڈپٹی چیف کابینہ سکریٹری یوشی ہیکو اسوزاکی نے پیر کو میانمار کی فوجی جنتا کے ہاتھوں جمہوریت کے حامی چار کارکنوں کو پھانسی دیے جانے کی مذمت کی اور ایک پرامن حل کے لیے زور دیاہے ۔
چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ میانمار کی تمام جماعتوں کو اپنے آئینی فریم ورک کے اندر تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے فورٹیفائی رائٹس کے سربراہ میتھیو اسمتھ نے خبررساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ “یہ خوفناک سزائے موت دراصل قتل تھے۔ یہ جنتا کے انسانیت کے خلاف جاری جرائم اور شہری آبادی پر حملے کا حصہ ہیں۔”
“جنتا کا یہ سوچنا سراسر غلط ہوگا کہ اس سے انقلاب کے چاہنے والوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوگا۔”
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے میانمار کےلئے تجزیہ کار رچرڈ ہارسی نے کہا کہ تازہ ترین پھانسیوں سے ملک میں بدامنی کے خاتمے کا کوئی امکان ختم ہو جاتا ہے۔
ہارسی نے رائٹرز کو بتایاکہ “بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کا کوئی امکان اب ختم ہو گیا ہے۔”
“یہ وہ حکومت ہے جو یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ وہی کرے گی جو وہ چاہے گی اور کسی کی نہیں سنے گی۔ وہ اسے طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھتی ہے، لیکن یہ ایک سنگین غلط اندازہ ہو سکتا ہے۔”
فوجی جنتا کیا کہتی ہے
فوجی ترجمان نے اس سارے معاملے کے بارے میں فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے ٹیلی فون کالز کا جواب نہیں دیا۔
گزشتہ ماہ فوجی ترجمان زاؤ من تون نے سزائے موت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ طریقہ کار بہت سے ممالک میں جائز ہے اور اس کا استعمال ہوتاہے۔
انہوں نے پوچھا کہ “آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ انصاف نہیں ہے؟ ضروری اوقات میں میں ضروری اقدامات کرنے چاہیے “۔
تاہم ان بیانات کی بین الاقوامی مذمت ہوئی تھی۔اقوام متحدہ کے دو ماہرین نے انہیں لوگوں میں “خوف پھیلانے کی ایک مذموم کوشش” قرار دیا تھا۔
کمبوڈیا کے وزیر اعظم اور ایسوسی ایشن آف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک (آسیان) کے سربراہ ہن سین نے جون میں ایک خط میں جنتا رہنما من آنگ ہلینگ کو پھانسی نہ دینے کی اپیل کی تھی ۔اس اقدام سے میانمار کے پڑوسی ملکوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
میانمار کی حکمراں جماعت نے پھانسی کے احکامات کے بارے میں غیر ملکی بیانات کی مذمت کی ہے اور اسے”لاپرواہی اور مداخلت”قرا ر دیا ہے ۔
میانمار گزشتہ سال کی بغاوت کے بعد سے افراتفری کا شکار ہے، فوج کی جانب سے شہروں میں زیادہ تر پرامن مظاہروں کو کچلنے کے بعد ملک بھر میں تنازعہ پھیل گیا۔
اے اے پی پی کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 2,100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن جنتا کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو عالمی عدالت نے روہنگیا مسلمان اقلیت کے ساتھ ہونے والے سلوک پر نسل کشی کے مقدمے پر میانمار کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا تھا ، جس سے اس کیس کی مکمل سماعت کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔