کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) کمیشن بنانا ہمارے لیے امید کی ایک چھوٹی سے کرن ہی ہے اس سے نہ تو میرے بھائی واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی انصاف مل سکتا ہے۔ ماضی میں بھی بہت سے کمیشن بنے مگر ان سے کسی کوئی انصاف نہیں ملا۔ یہ الفاظ بلوچستان کے ضلع زیارت میں فوجی آپریشن میں ہلاک ہونے والے نوجوان شہزاد کے بڑے بھائی عبدالحمید کے ہیں۔”
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالحمید نے کہا کہ شہزاد احمد کی مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کا پورا گھرانہ غم سے نڈھال ہے۔ ہم شہزاد احمد کو کھبی نہیں بھول سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جس بھائی کی بازیابی کے لیے سرگرداں تھے اس کی لاش ہمارے حوالے کی گئی، شہزاد کے ہاتھوں پر ہتھکڑیوں اور آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے واضح نشانات موجود تھے ایک شخص کو زندان سے اٹھا کر مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں بے دردی سے مارنا کہاں کا انصاف ہے۔
بلوچستان حکومت نے زیارت واقعہ کی تحقیقات کے لیے بدھ کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن میں نو افراد مارے گئے تھے جن میں سے پانچ کی شناخت لاپتا افراد کے طور پر کی گئی تھی۔
جوڈیشل کمیشن بلوچستان ٹریبونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کے تحت بنایا گیا ہے ۔ عدالت عالیہ کے جج جسٹس محمد اعجاز سواتی ِ زیارت ہلاکتوں کی تحقیقات کریں گے۔ کمیشن 30 روز میں رپورٹ پیش کرے گا ۔ کمیشن کا نوٹی فکیشن ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کی فہرست مرتب کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے الزام عائد کیا تھا کہ زیارت میں فورسز کی جانب سے ایک جعلی مقابلہ کیا گیا تھا۔ آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ تاہم ان کے بقول ہلاک ہونے والے نو افراد میں سے پانچ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے پیارے عرصۂ دراز سے تلاش کر رہے تھے۔
تنظیم نے ہلاک ہونے والے افراد کر لواحقین کے ہمراہ سات روز قبل کوئٹہ میں ایک ریلی نکالی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوئٹہ میں ریڈ زون پر واقع گورنر ہاؤس کے قریب احتجاجی دھرنا دیا ۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے فیصلے کے باوجود یہ دھرنا تاحال جاری ہے۔
کمیشن کے قیام کے حوالے سے زیارت آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کا خیال ہے کہ یہ اقدام خوش آئند ہے تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ جوڈیشل کمیشن کس طرح انصاف فراہم کرتا ہے۔
شہزاد احمد کے بھائی عبدالحمید نے الزام عائد کیا ہے کہ زیارت واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس لیے ہم نے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا کہ لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے مگر ہمیں اس کمیشن سے زیادہ اُمیدیں نہیں ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کوئٹہ کے ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور احتجاجی دھرنے میں شریک لاپتا افراد کے لواحقین کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوئے جس پر حکومت نے مظاہرین کے مطالبے کو مان لیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت سے اغوا ہونے والے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کوئٹہ کے ایک افسر لفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ کی لاش مل گئی ہے۔
سیکیورٹی فورسز کے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زیارت میں سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ ضلع ہرنائی اور زیارت کے درمیان پہاڑی سلسلے سے ایک لاش ملی جس کی شناخت لیفٹننٹ کرنل لئیق کے نام سے ہوئی ہے۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے لیفٹینٹ کرنل لئیق بیگ مرزا ااور ان کے کزن عمر جاوید کو قائد اعظم ریزیڈنسی سے واپس کوئٹہ آتے ہوئے ورچوم کے علاقے میں اغوا کیا تھا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ زیارت میں مبینہ جعلی مقابلے میں شہزاد بلوچ کے علاوہ دیگر چار ایسے افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں تھا۔
تنظیم کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ پہلے شناخت ہونے والوں میں ایک شخص کا نام شمس ساتکزئی بتایا گیا ہے جنھیں پانچ سال قبل اغوا کیا گیا تھا۔