اسلام آباد (نمائندہ ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں حادثے کا شکار ہونے والے فوجی ہیلی کاپٹر کا ملبہ تلاش کر لیا گیا ہے اور اس حادثے میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سیلاب کے حوالے سے امدادی کارروائیوں میں شریک اس ہیلی کاپٹر کا ملبہ وندر کے علاقے میں موسیٰ گوٹھ سے ملا۔
ادارے کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی اور انجینئرنگ کور کے بریگیڈیئر محمد خالد کے علاوہ عملے کے تین ارکان بشمول پائلٹ میجر سعید احمد، پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے پیر کی شب بتایا تھا کہ آرمی ایوی ایشن کا یہ ہیلی کاپٹر پیر کی شام اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے لاپتہ ہوا تھا۔ ہیلی کاپٹر پانچ بج کر 10 منٹ پر اوتھل کے علاقے سے اڑا اور اس نے چھ بج کر پانچ منٹ پر کراچی پہنچنا تھا تاہم راستے میں اس کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا۔
ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد اس کی تلاش کا عمل شروع کر دیا گیا تھا جس میں منگل کی صبح ہیلی کاپٹر بھی شامل ہوئے تھے۔
The wreckage of unfortunate hel which was on flood relief ops found in Musa Goth, Windar, Lasbela. All 6 offrs & sldrs incl Lt Gen Sarfraz Ali embraced shahadat. اِنّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
Accident occurred due to bad weather as per initial investigations . DTF pic.twitter.com/dnyano2vqC— DG ISPR (@OfficialDGISPR) August 2, 2022
آئی ایس پی آر کے اعلان سے چند گھنٹے قبل لسبیلہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی اردو کے محمد کاظم کو بتایا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ ساکران میں موسیٰ گوٹھ کے علاقے سے ایک پہاڑی سے ملا ہے اور پولیس کے علاوہ ایف سی اور فوج کے اہلکار بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں۔
اس سے قبل ڈی آئی جی پولیس قلات رینج پرویز خان عمرانی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ تلاش کے سلسلے میں جب مقامی لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ آخری مرتبہ پولیس سٹیشن ساکران کی حدود میں ہیلی کاپٹر کے گزرنے کی آواز سنی گئی تھی۔
ملبہ کہاں سے اور کیسے ملا؟
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ فوجی افسران جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے وہ ساکران میں موسیٰ گوٹھ کے قریب ’کچھ کراڑو‘ کے پہاڑی سلسلے میں گر کر تباہ ہوا ہے۔
لسبیلہ کے مقامی وڈیرے غلام شفیع نے بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کو بتایا کہ انھوں نے نہ صرف خود ہیلی کاپٹر کی تلاش میں حصہ لیا بلکہ دیگر مقامی افراد نے بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ تلاش کا سلسلہ گذشتہ شب ہی شروع کر دیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں یہ ہیلی کاپٹر گرا وہ بنیادی طور پر ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔
غلام شفیع نے مزید بتایا کہ انھیں پیر کی شب 8 بجے بلوچستان کے وزیر بلدیات سردار محمد صالح بھوتانی کا فون آیا اور انھوں نے آگاہ کیا کہ ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوا ہے جس کی تلاش میں مدد کی جائے۔
یاد رہے کہ ضلع لسبیلہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کا بھی آبائی ضلع ہے اور اپنی ایک ٹویٹ میں انھوں نے بھی مقامی افراد کو ہیلی کاپٹر کی تلاش میں مدد دینے کے لیے کہا تھا۔
غلام شفیع کے مطابق ۔رات کو اندھیرے میں اس دشوار گزار علاقے میں تلاش کا کام کوئی بہت زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا تھا جس کے باعث رات ایک بجے کے لگ بھگ تلاش کا کام روک دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’صبح کو تلاش کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک پہاڑ کے اوپر ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا۔‘
جہاز کا ملبہ کس پہاڑی سلسلے میں ملا؟
ڈی آئی جی پولیس قلات رینج پرویز خان عمرانی نے بتایا کہ حادثے سے دوچار ہونے والے ہیلی کاپٹر کو آخری مرتبہ مقامی لوگوں نے ساکران کے اُوپر سے گزرتے دیکھا تھا۔
غلام شفیع کے مطابق مقامی لوگوں کی جانب سے یہ خبر ملنے کے بعد تلاش کا محور زیادہ تر ساکران کے علاقے کو بنایا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ منگل کی صبح ملبہ ساکران میں موسٰی گوٹھ کے قریب ایک پہاڑ کی چوٹی سے ملا، یہ پہاڑ موضع کچھکراڑو میں ہے جسے ’پب جبل‘ کہا جاتا ہے۔
ساکران کہاں واقع ہے؟
مقامی وڈیرے غلام شفیع کے مطابق ساکران زیادہ تر پہاڑوں اور میدانی علاقوں پر مشتمل ہیں اور وہاں جنگل بھی ہیں۔
لسبیلہ کے صنعتی شہر حب میں ڈان ٹی وی کے نمائندے اسماعیل ساسولی نے بتایا کہ پب جبل ایک بڑا پہاڑی سلسلہ ہے اور اس کی اونچائی بہت زیادہ ہے۔
ان کے بقول یہاں ایک چوپان نے صبح ہیلی کاپٹر کے ملبے کو دیکھا تھا جنھوں نے اس کے بارے میں وہاں کے لوگوں کو بتایا تھا جنھوں نے آگے انتظامیہ کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ معروف عشقیہ داستان کے اہم کردار سسی اور پنوں کی درگاہ سے یہ علاقہ بیس سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ خود ساکران لسبیلہ کے ہیڈ کوارٹر اوتھل سے جنوب میں اندازاً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اوتھل کے مقامی صحافی پیر بخش کلمتی نے بتایا کہ اس علاقے میں لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے ۔
یاد رہے کہ ضلع لسبیلہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب میں اندازاً سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جنوب میں لسبیلہ کی سرحد پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی سے متصل ہے۔
کراچی کے علاوہ اس ضلع کی سرحدیں خضدار اور آوران سے بھی متصل ہیں۔
آوران کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔
’کور کمانڈر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے آئے تھے‘
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے پیر کی شب ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ہیلی کاپٹر بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے آپریشن میں شامل تھا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کا ضلع لسبیلہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
ضلعے کے مختلف علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جہاں انتظامیہ، پاکستانی فوج، ایف سی اور پاکستان نیوی کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
لسبیلہ میں انتظامیہ کے سینیئر اہلکار نے بتایا کہ پیر کو لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خود وہاں امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے پہنچے تھے تاکہ ان میں تیزی لائی جا سکے۔
ڈی آئی جی پولیس قلات رینج پرویز خان عمرانی کے مطابق کور کمانڈر نے پیر کو اوتھل میں ریلیف کی سرگرمیوں سے متعلق اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور کراچی روانگی سے پہلے انھوں نے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا تھا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ کورکمانڈر اور دیگر فوجی اہلکار شام پانچ بجے کے قریب اوتھل سے ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کون تھے؟
بی بی سی اردو کی نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا تعلق 79ویں لانگ کورس سے تھا اور وہ پاکستان آرمی کی سکس آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ تھے۔ جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 10 کور کمانڈ کر رہے تھے، اس وقت لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے پاس بطور بریگیڈیئر ٹرپل ون بریگیڈ کی کمان تھی۔
اس کے بعد وہ امریکہ میں پاکستان کے سفارت خانے میں بطور ڈیفینس اتاشی خدمات سرانجام دیتے رہے۔
امریکہ سے واپسی کے بعد لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی سٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈنٹ تعینات ہوئے جس کے بعد وہ ملٹری انٹیلی جنس یعنی ایم آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
ایم آئی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد وہ ایف سی بلوچستان ساؤتھ کے آئی جی تعینات ہوئے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ان کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا۔
لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ہونے کے بعد انھیں کور کمانڈر 12 کور، جسے کوئٹہ کور بھی کہا جاتا ہے، تعینات کیا گیا تھا۔
ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار دیگر افراد میں ڈی جی کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی کی گذشتہ ہفتے آرمی کے پروموشن بورڈ کے دوران میجر جنرل کے رینک میں ترقی ہوئی تھی۔
ہیلی کاپٹر میں موجود بریگیڈیر خالد کا تعلق کور آف انجینیئرز سے تھا۔
ہیلی کاپٹر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
حادثے کا شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر ایکریل ہے جو جدید مگر سائز میں چھوٹا ہوتا ہے۔
اس میں ایک وقت میں صرف چھ افراد ہی بیٹھ سکتے ہیں۔
اس سے قبل یہ ہیلی کاپٹر سنہ 2021 میں سیاچن میں بھی گرا تھا۔ یہ حادثہ ٹین این ایل آئی بٹالین ہیڈکوارٹر کے قریب پیش آیا تھا اور جہاز میں سوار دو افسران اور ایک جوان ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچ شدت پسند تنظیم براس کا پاکستانی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعوی
بلوچ مسلح تنظیمیں کی اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر ( براس )کے ترجمان بلوچ خان نے بلوچستان میں پاکستان فوج کا ہیلی کاپٹر مار گرائے جانے کا دعوی کیا ہے۔
میڈیا کو جاری کیے گیے مختصر بیان میں تنظیم کے ترجمان بلوچ خان کا کہنا تھا کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے جنگجوؤں نے گذشتہ روز بلوچستان کے علاقے وندر اور نورانی کے درمیان پہاڑی سلسلے میں پاکستانی فوجی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ تفصیلی بیان بعد میں میڈیا کو جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ براس تنظیم میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) پر مشتمل ہے۔