تھائی لینڈ دھماکوں سے لرز اٹھا

بنکاک (ڈیلی اردو) تھائی لینڈ منگل کی رات کے آخری پہر اور بدھ کو یکے بعد دیگرے سترہ بم دھماکوں سے لزر اٹھا۔

حکام نے بتایا ہے کہ جنوبی تھائی لینڈ میں کم از کم 17 مقامات پر بم دھماکے اور آتشزدگی کے حملے ہوئے ہیں، بظاہر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور باہم مربوط نظر آنے والے واقعات کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کی خبر کے مطابق فوجی اور پولیس حکام نے بتایا کہ بم دھماکے اور آگ لگائے جانے کے حملے منگل کی رات کے آخری پہر اور بدھ کی صبح کے آغاز میں ہوئے۔

فوجی ترجمان نے بتایا کہ اس طرح کے کم از کم 17 حملے جنوبی صوبوں پٹنی، ناراتھیوات اور یالا میں ہوئے، حملوں میں زیادہ تر چھوٹی دکانوں اور گیس اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم 3 شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

پولیس کیپٹن نے بتایا کہ انہیں آدھی رات سے کچھ دیر پہلے اطلاع موصول ہوئی کہ ایک مشتبہ شخص یالا کے یاہا ضلع میں ایک گیس اسٹیشن پر دکان میں داخل ہوا، اس نے دکان میں کالا بیگ رکھا اور ملازمین کو خبر دار کیا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو وہاں سے چلے جائیں۔

مشتبہ شخص کی جانب سے بیگ رکھنے اور دھمکی دیے جانے کے بعد اور دھماکا ہونے سے 10 منٹ قبل ہی تمام ورکرز وہاں سے نکل گئے تھے۔

ملائیشیا کی سرحد کے ساتھ واقع جنوبی تھائی لینڈ کے صوبوں میں دہائیوں سے طویل، نچلی سطح کی بغاوت جاری ہے، تھائی حکومت اکثریتی مسلم صوبوں پٹنی، یالا، ناراتھیوات اور سونگخلا کے کچھ حصوں کی آزادی کے خواہاں گروپوں سے جنگ لڑ چکی ہے۔

پر تشدد واقعات پر نظر رکھنے والے ڈیپ ساؤتھ واچ گروپ کے مطابق 2004 سے اب تک اس تنازع میں 7 ہزار 300 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں۔

جنوبی صوبوں میں بے چینی

جنوبی صوبوں میں رہائش پذیر مسلمان تھائی باشندے طویل عرصے سے الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بدھ مت کی اکثریت والے ملک میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، تھائی حکومت کے کریک ڈاؤن نے بھی جنوبی صوبوں کے مسلمانوں میں عدم اطمینان اور بے چینی کو ہوا دی ہے۔

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ حملہ آور موٹرسائیکلوں پر سوار تھے جب کہ انہوں نے بہت سے حملوں میں اپنے اہداف پر پیٹرول بم پھینکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ باغی لوگ پر تشدد واقعات، معاشی عدم استحکام، غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے اور حکومتی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

حملوں کی یہ حالیہ لہر سال کے شروع میں تھائی حکومت کی جانب سے وبائی مرض کوویڈ 19 کے 2 سال کے وقفے کے بعد مرکزی باغی گروپ باریسن ریولوسی نیشیال کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کرنے کے بعد دیکھی گئی ہے۔

فریقین کے درمیان 2013 میں شروع ہونے والے امن مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔

پتانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن (پی یو ایل او)، جسے مذاکرات کے تازہ ترین مرحلے سے دور کر دیا گیا تھا، اس نے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران بم دھماکے کیے۔

تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف نہیں ہے، تنظیم کے رہنما نے رائٹرز کو بتایا کہ تازہ ترین حملوں کا ان کی جماعت پی یو ایل او سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تمام گروپوں سے بات چیت اور مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

جنوبی صوبے میں موجود باغی گروپ عام طور پر ہٹ اینڈ رن حملے کرتے ہیں، ان کے حملوں میں فائرنگ کرکے فرار ہونا اور سڑک کنارے بم نصب کرنا جیسے طریقے شامل ہیں۔

وہ باغی گروپ اپنی قوت کے اظہار، حکومت پر دباؤں بڑھانے اور اپنے سیاسی مطالبات و نکات کی منظوری کے لیے کبھی کبھار منظم حملے بھی کرتا ہے۔

نومبر 2019 میں، مسلح حملہ آوروں نے گاؤں کے 15 دفاعی رضاکاروں کو ہلاک اور پانچ سیکورٹی اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھا، اس حملے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بغاوت شروع ہونے کے بعد سے حکومتی فورسز پر اب تک کا سب سے مہلک ترین حملہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں