پاکستان پر براہموس میزائل داغے جانے کے معاملے میں بھارتی فضائیہ کے تین افسران نوکری سے برخاست

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) بھارتی فضائیہ کے مطابق رواں برس کے آغاز میں پاکستانی حدود میں غلطی سے براہموس میزائل داغے جانے کے معاملے میں تین افسران کو برخاست کر دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ نو مارچ کو پیش آیا تھا اور یہ میزائل پاکستان کے شہر میاں چنوں کے قریب گرا تھا تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا کیونکہ اس میزائل کا وار ہیڈ فعال نہیں تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو انڈین فضائیہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’اس معاملے کے حقائق جاننے کے لیے ایک کورٹ آف انکوائری کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا کام اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرنا بھی تھی۔‘

بیان کے مطابق تحقیقات سے پتہ چلا کہ ’تین افسران کا مروجہ طریقۂ کار سے ہٹنا میزائل کے حادثاتی فائر کی وجہ بنا۔‘

فضائیہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں افسران کو ہی اس واقعے کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور انھیں فوری طور پر برخاست کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 23 اگست کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے اس کارروائی پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ خیال رہے کہ کورٹ آف انکوائری کی تشکیل کے اعلان کے وقت پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انڈیا کی جانب سے اندرونی کورٹ آف انکوائری کے ذریعے اس حادثے کی تحقیقات کا فیصلہ ناکافی ہے کیونکہ یہ میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، اس لیے پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے کے حقائق طے کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کی جائیں تاہم انڈیا نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

میزائل پاکستان کے شہر میاں چنوں کے قریب گرا تھا تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تھا کیونکہ اس میزائل کا وار ہیڈ فعال نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 11 مارچ کو انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ نو مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔

انڈیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘نو مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہو گیا تھا۔’

اس واقعے کے بعد پاکستان کی جانب سے اس ‘سنگین کوتاہی’ کی مشترکہ تفتیش کا مطالبہ کیا گیا تھا اور نئی دہلی سے ’غلطی سے میزائل فائر‘ ہونے کو مستقبل میں روکے جانے کے حوالے سے موجود حفاظتی تدابیر کی وضاحت مانگی گئی تھی۔

اس واقعے کے چند دن بعد انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمان میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ انڈیا اپنے ہتھیاروں کے نظام کے آپریشنز، دیکھ بھال اور معائنے کے طریقوں کا از سرِ نو جائزہ لے رہا ہے۔

راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے ہتھیاروں کے نظام کی حفاظت اور سکیورٹی کو انتہائی ترجیح دیتے ہیں اور اگر اس نظام میں کوئی کمی پائی گئی تو اسے فوری طور پر دور کیا جائے گا۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان میزائل کے بارے میں اطلاعات شئیر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟

پچھلے 17 برسوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چھ بڑے تنازعات چھڑے ہیں جن کو بات چیت اور بین الاقوامی مداخلت کے بعد ختم کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں میزائل کا حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بیانیے کو دونوں ملکوں میں ماہرین تشویش سے دیکھ رہے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری اور ہتھیاروں کے معاہدوں کو شیئر کرنے کے بارے میں بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔

21 فروری 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حفاظتی یاد داشت پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس ایم او یو میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کے بیلسٹک میزائل کا ٹیسٹ کرنے سے پہلے بتائیں گے۔ دونوں ممالک زمینی یا بحری بیلسٹک میزائل لانچ کرنے سے تین دن پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔ اور آگاہ کرنے کی ذمہ داری دونوں ملکوں کے دفترِ خارجہ اور ہائی کمیشن پر ہو گی۔

اس کے علاوہ بھی کئی ایسے معاہدے طے پائے ہیں جن کے تحت پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے سے ہر سال یکم جنوری کو جوہری ہتھیاروں کے مقامات (سائیٹ) کی فہرست کا تبادلہ کرتے ہیں۔

دونوں ممالک میں یہ بھی طے پایا ہے کہ اگر مسلح لڑاکا طیارے 10 کلومیٹر کی سرحدی حدود میں اڑیں گے تو انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کو بتائیں گے۔

تیسرا معاہدہ جوہری حادثے سے متعلق ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں سے کسی میں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کو مطلع کریں گے۔

تاہم پچھلے 17 سال کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدے تو طے پائے ہیں لیکن اسی دوران ہتھیار خریدنے اور جمع کرنے کی رفتار میں بھی تیزی دیکھنے کو ملی۔ نتیجتاً بہت سے نئے ہتھیار ان معاہدوں کا حصہ نہیں ہیں۔

سینٹر فار ایرو سپیس اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر سید محمد علی نے بی بی سی کی سحر بلوچ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بیلسٹک میزائل پر تو با ضابطہ طور پر معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں لیکن نئے میزائل جیسے کہ کروز میزائل پر اب تک کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔

سنہ 2005 میں پاکستان نے انڈیا سے کروز میزائل کے ٹیسٹ کے بارے میں بھی معاہدہ طے کرنے کی بات کی تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع دے سکیں۔ لیکن انڈیا نے اس بات کی حمایت نہیں کی۔

11 اگست 2005 میں پاکستان نے پہلے کروز میزائل بابر کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بابر کی جدید قسم بھی بنائی۔ جس کے بعد ایئر لانچ کروز میزائل رعد بھی آ گیا۔ اسی طرح انڈیا نے بھی کروز میزائل بنائے جن میں براہموس شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں