کولمبو (ڈیلی اردو/اے ایف پی) سری لنکا میں بچے ‘بھوکے سو تے ہیں’ اور ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک بھی اس قسم کی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا درآمدات خریدنے کے لیے غیر ملکی کرنسی ختم ہونے کے بعد خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی کمی کو چھوڑ کر بدترین مندی کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جارج لاریہ-اڈجی نے کہا کہ اس بحران کو ان خاندانوں نے شدت سے محسوس کیا جو ‘معمول کا کھانا چھوڑ رہے تھے’ کیونکہ اجناس قوت خرید سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘بچے بھوکے سو رہے ہیں اور انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا’۔
یاد رہے کہ سری لنکا اپریل میں اپنے 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کی وجہ سے دیوالیہ ہوگیا تھا اور اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آؤٹ بات چیت کررہا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہمسایہ ممالک کی معیشتوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور جارج لاریہ-ادجی نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک غذائیت کے بحران کا سامنا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں شدید معاشی بدحالی اور مہنگائی سے بچوں کی زندگیوں کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا کہ میں نے سری لنکا میں جو کچھ دیکھا وہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے ایک انتباہ ہے۔
یونیسیف نے سری لنکا کی کم از کم نصف بچوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی اپیل کی ہے۔
حکومت نے بھی رواں ماہ بچوں میں تیزی سے پھیلتی غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اپیل کی تھی۔
سال 2021 کے سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ملک بھر میں پری اسکول کے 5 لاکھ 70 ہزار طلبا میں سے ایک لاکھ 27 ہزار غذائی قلت کا شکار تھے۔
اس وقت سے حکام کا خیال ہے کہ خوراک کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مکمل اثرات کی وجہ سے اعداد و شمار آسمان کو چھو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سری لنکا کی معاشی بدحالی کے سبب گزشتہ ماہ مشتعل ہزاروں مظاہرین نےصدر کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا جس کے بعد سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسا ملک سے فرار ہوگئے تھے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔