واشنگٹن + بیجنگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ نے تائیوان کو 1.1 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دے کر چین کو ناراض کیا ہے۔
US approves $1.1bn Taiwan arms sale, angering China https://t.co/DFBYjnbFJ1
— BBC News (UK) (@BBCNews) September 2, 2022
اس مجوزہ معاہدے میں ریڈار سسٹم، جس سے فضائی حملوں کو ٹریک کیا جاسکتا ہے، کے علاوہ اینٹی شپ اور اینٹی ایئر میزائل شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا۔ وہ 25 برسوں میں تائپے جانے والی سب سے سینیئر امریکی اہلکار ہیں۔
واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے امریکہ سے یہ معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اسے متنبہ کیا کہ اسے اس کے ردعمل میں اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چینی سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے ذریعے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو ’بُری طرح متاثر‘ کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’چین اس صورتحال کے ردعمل میں ٹھوس اور ضروری اقدامات کرے گا۔‘
بیجنگ اس خودمختار جزیرے کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اسے چین کے مرکز سے جوڑنا درکار ہے، حتی کہ اگر ایسا کرنے میں طاقت کا استعمال بھی کرنے پڑے۔
گذشتہ ماہ امریکی وفد کی تائیوان آمد پر چین نے اس کے گرد فوجی مشقیں کیں۔
امریکہ نے جمعے کو ہتھیاروں کے اس معاہدے کی منظوری دی مگر اب اس پر امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہوگی جہاں تائیوان کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
اس معاہدے میں 65 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا ریڈار وارننگ سسٹم اور 35 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے 60 ہرپون میزائل شامل ہیں جن کی مدد سے بحری جہازوں کو ڈبویا جاسکتا ہے۔
پینٹاگون کی ڈیفنس سکیورٹی کواپریشن ایجنسی کے مطابق اس میں آٹھ کروڑ 56 لاکھ ڈالر کے سائیڈونڈر میزائل شامل ہیں جو زمین سے فضا اور فضا سے فضا میں مار کر سکتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ معاہدہ ’تائیوان کی سالمیت کے لیے اہم ہے۔‘ انھوں نے بیجنگ سے مطالبہ کیا کہ وہ ’تائیوان کے خلاف فوجی، سفارتی اور معاشی دباؤ ختم کرے، اور معنی خیز مذاکرات‘ کی طرف جائے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گذشہ ماہ پینٹاگون نے بیرونی ملک اتحادیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔
امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ تائیوان کی جانب سے برسوں قبل دیے گئے آرڈر پورے نہیں کیے گئے۔ ڈیفنس نیوز کے مطابق ان آرڈرز میں ہارپون اور سٹنگر میزائل شامل ہیں جنھیں تائیوان کے بجائے یوکرین بھیجا گیا ہے۔
اب امریکہ کے اس اقدام سے بیجنگ ناراض ہوا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ چینی درآمدات پر اربوں ڈالر کے ٹیرف کو جاری رکھیں گے۔ ان ٹیکسوں کو ٹرمپ انتظامیہ نے نافذ کیا تھا۔
امریکی محکمہ تجارت کے نمائندے کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسے کاروباروں اور دیگر متعلقہ افراد کی جانب سے یہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ 2018 اور 2019 کے دوران نافد کردہ ڈیوٹی کو جاری رکھا جائے۔
امریکی حکام اس سے قبل مہنگائی روکنے کے لیے ٹیرف ختم کرنے پر غور کر رہے تھے۔
دریں اثنا جمعے کو صدر جو بائیڈن نے روس سے جاری جنگ کے پیش نظر یوکرین کے لیے 13.7 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد کی منظوری دی ہے۔
پینٹاگون نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ یوکرین کے لیے امریکہ کی مجموعی فوجی امداد 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔