اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقلیتوں کے لیے کام کرنے والے اداروں نے سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں عدالت عظمٰی نے ریاست کو توہین رسالت کے مقدمات میں انتہائی احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق جمعرات کو توہین رسالت کے مقدمے میں ضمانت کے حوالے سے ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اس طرح کے مقدمات کو میڈیا کوریج بہت ملتی ہے جس کی وجہ سے منصفانہ ٹرائل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ملزم سلامت منشا مسیح لاہور ویسٹ مینجیمنٹ کمپنی میں ملازم ہے اور توہین رسالت کے الزام میں ایک سال سے جیل میں تھا۔ دورکنی اس ڈویژن بینچ میں جسٹس فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ تھے۔
نو صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں کہا گیا کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے، اس لیے ریاست کو اس کی تفتیش اور دوسرے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ کسی کے ساتھ نہ انصافی نہ ہو۔
عدالت نے لکھا کہ بہت سارے الزامات ذاتی عناد، شرارت، درپردہ مقاصد یا ذاتی انتقام لینے کے لیے درج کیے جاتے ہیں۔
بہت اہم فیصلہ
انسانی حقوق کے کارکن اور معروف وکیل سیف الملوک نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے اور عدالتی تشریح کا مستقبل کے مقدمات پر بہت گہرا اثر ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ماضی میں عدالتیں اس بات کا فیصلہ کر نہیں سکیں تھیں کہ یہ جرم حد کے زمرے میں آتا ہے یا اس کی نوعیت کسی اور طرح کی ہے لیکن اب عدالت نے کہہ دیا ہے کہ جرم حد میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ الزام لگانے والے کے کردار کے حوالے سے پوچھنا پڑے گا اور گواہوں کے کردار کو جانچنا پڑے گا۔‘‘
سیف الملوک کے مطابق اس کے علاوہ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ حالات اور واقعات کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا۔
”مثال کے طور پر اس مقدمے میں چار لڑکوں نے کہا کہ وہ والٹن کالج میں پڑھتے ہیں اور دس کلو میٹر دور ماڈل ٹاؤن کے کسی پارک میں گئے اور وہاں انہوں نے دیکھا کہ اس ملزم نے توہین رسالت کی ہے۔ تو پارک میں اور لوگ بھی تھے، انہوں نے یہ سب کیوں نہیں دیکھا۔ تو لڑکوں کا بیان حالات و واقعات کے مطابق نہیں۔‘‘
مذہبی آزادی
انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا آئین مذہبی آزادی تمام شہریوں کو دیتا ہے لیکن اس آئینی حق کو عملی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سیف الملوک کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مذہبی آزادی کو بھی فروغ ملے گا۔ ” اس فیصلے اور عدالتی تشریح کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ اس آئینی حق کا تمام حکومتی اور دوسرے ادارے احترام کریں گے، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل انیس اس بات کو واضح طور پر کہتا ہے کہ پاکستانی شہری کسی بھی طرح کے مذہب کی پیروی کر سکتے ہیں اور اس کا ابلاغ بھی کر سکتے ہیں لیکن جب غیر مسلم اپنے مذہب کا ابلاغ کرتے ہیں تو ان پر توہین رسالت کے الزام لگا دیا جاتا ہے۔ تو اس فیصلے کے بعد اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘‘
ریاست کیا کر سکتی ہے؟
توہین رسالت کے قانون میں شروع شروع میں تفتیش نچلی سطح کے افسران کرتے تھے لیکن پھر اس میں ترمیم کی گئی تھی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر اس کی تفتیش صحیح معنوں میں سینیئر افسر کرے تو اس قانون کے غلط استعمال کا راستہ رک سکتا ہے۔ سیف الملوک کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر تفتیش نچلے لیول کے افسران کرتے ہیں۔ ”میرا خیال ہے کہ عدالتوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ یہ تفتیش نچلے لیول کے افسر نے کی ہے یا ایس پی نے اور اگر کسی بھی مرحلے پر یہ ثابت ہوجائے کہ تفتیش نچلے لیول کے افسر نے کی ہے، تو ریاست کو مقدمہ وہیں ختم کر دینا چاہیے۔‘‘
اقلیتوں کی طرف سے خیر مقدم
لاہور سے تعلق رکھنے والے پیٹر جیکب نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے اورعدالتی تشریح کے بعد توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال رکے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عدالت نے جو نکات اس فیصلے میں اٹھائے ہیں، وہ انتہائی اہم ہیں۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ تفتیش کے وقت ان نکات کو پیش نظر رکھیں جب کہ عدالتوں کو ٹرائل کے دوران ان نکات کو دیکھنا چاہیے۔‘‘
پیٹر جیکب کے مطابق اعلٰی عدالتوں نے ماضی میں بھی اچھے فیصلے سنائے ہیں۔ ”لیکن بدقسمتی سے نچلی سطح پر ان کی پیروی نہیں کی جاتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹرائل تو دور کی بات، صرف ضمانت کے لیے بھی اس طرح کے مقدمات میں ملزمان کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ان کے مالی وسائل تباہ ہوجاتے ہیں۔ وقت ضائع ہوتا ہے اور وہ مالی طور پر بالکل تباہ ہو جاتے ہیں۔‘‘