واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) امریکی میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق روس اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شمالی کوریا سے فوجی ساز و سامان خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے کیونکہ پابندیوں نے ماسکو کی اپنی فوج کو اسلحے سے لیس کرنے کی صلاحیت کو سخت متاثر کیا ہے۔
Explainer: What weapons could North Korea send to Russia? https://t.co/vhxvznwFk3 pic.twitter.com/hrWLaxbeM9
— Reuters (@Reuters) September 7, 2022
نیویارک ٹائمز کی جانب سے حاصل کی گئی ڈیکلاسیفائیڈ خفیہ معلومات کے مطابق روس نے پیانگ یانگ سے لاکھوں توپ کے گولے اور راکٹ خریدے ہیں۔
Investigators who examined electronics in Russia's new cruise missiles and attack helicopters were surprised to find decades-old technology reused from earlier models — undercutting Moscow’s narrative of a rebuilt military that rivals Western adversaries. https://t.co/hZs6jQyY5r
— The New York Times (@nytimes) September 4, 2022
ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ روس شمالی کوریا سے اضافی ہتھیار خریدنے پر مجبور ہو جائے گا۔
کچھ حلقوں میں آنے والی رپورٹس کے مطابق پچھلے ہفتے، ماسکو کو نئے ایرانی ڈرونز کا پہلا آرڈر موصول ہوا۔
ایران اور شمالی کوریا جو کہ مغربی دنیا کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے نشانے پر ہیں، ان دونوں ممالک نے فروری میں صدر ولادیمیر پوتن کے یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کی کوشش کی ہے۔
کم جونگ اُن کی حکومت نے اس تنازعے کا الزام امریکہ پر عائد کیا ہے اور مغرب پر تسلط پسندانہ پالیسی پر عمل کرنے کا الزام لگایا ہے اور اسے وجہ بتاتے ہوئے روس کی جانب سے طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔
پچھلے مہینے شمالی کوریا نے مشرقی یوکرین میں روس کے زیرِ اثر دو پراکسی ریاستوں ڈونیٹسک اور لوہانسک عوامی جمہوریہ کی آزادی کو تسلیم کیا اور ماسکو کے ساتھ اپنی ‘کامریڈز والی دوستی’ کو مزید گہرا کرنے کا عزم کیا۔ پیانگ یانگ کے سرکاری میڈیا کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ دونوں ملک اپنے ‘جامع اور تعمیری دو طرفہ تعلقات’ کو وسعت دیں گے۔
فی الحال اس رپورٹ کے ذریعے سامنے آنے والے معلومات سے نئے ہتھیاروں کی ترسیل اور تعداد کاصحیح اندازہ نہیں ہے۔
لیکن ایک امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حمایت کے لیے شمالی کوریا کا رخ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘روسی فوج کو یوکرین میں رسد کی شدید قلت کا سامنا ہے، جس کی وجہ برآمدی کنٹرول اور پابندیاں ہیں’۔
فن لینڈ کے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے مطابق وسیع اقتصادی پابندیوں نے توانائی کی برآمدات سے روس کی آمدنی کو نقصان پہنچانے میں بہت کم کام کیا ہے۔ ادارے کا اندازہ ہے کہ روس نے چھ ماہ کے حملے کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے سے 157 بلین ڈالر کمائے ہیں، جس میں یورپی یونین کی درآمدات نصف سے زیادہ ہیں۔
تاہم، امریکہ اور یورپی یونین کا خیال ہے کہ ماسکو کی اپنی فوج کو دوبارہ سپلائی کرنے کی صلاحیت خراب ہو گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ ایرانی ساختہ ڈرونز کی پہلی کھیپ بھی روس پہنچ گئی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے افسران کا خیال ہے کہ روسی آپریٹرز نے مہاجر-6 اور شہید سیریز کے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنے کے لیے ایران کا سفر کیا ہے۔
لیکن انہوں نے حال ہی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ بہت سے ڈرون ڈیلیوری کے بعد سے مکینیکل اور تکنیکی مسائل کا شکار تھے۔
ایران نے باضابطہ طور پر تنازع کے کسی بھی فریق کو ہتھیار فراہم کرنے سے انکار کیا ہے لیکن جولائی میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا تھا کہ تہران ماسکو کو یوکرین میں اپنی جنگ کے لیے ممکنہ طور پر سینکڑوں ڈرون فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جن میں سے کچھ جنگی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔
منگل کے روز، برطانیہ کے دفاعی حکام نے ایک ڈیلی بریفنگ میں کہا کہ روس اہم ‘جنگی نقصانات’ کے پیش نظر میدان جنگ میں ڈرون کی فراہمی کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔
اس بریفنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘امکان ہے کہ روس UAVs (بغیر پائلٹ کے فضائی طیارے) کے اسٹاک کو چلتا رکھنے کے لیے مشکل کا شکار ہے، جو بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں پرزوں کی کمی کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔’
برطانوی دفاع اہلکاروں نے مزید یہ بھی کہا کہ ‘جاسوسی کرنے والے ڈرونز کی محدود دستیابی ممکنہ طور پر کمانڈروں کی حالات سے آگاہی کو کم کر رہی ہے روسی حکمت عملی اور کارروائیوں میں تیزی سے رکاوٹ ڈال رہی ہے۔’